• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مغرب کی اذان کے بعد ہاتھ اٹھاکر دعا مانگنے کا حکم

استفتاء

لوگ ہمارے ہاں مغرب کی اذان کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں، کیا شریعت میں اس کا کوئی ثبوت ہے؟ اس طرح دعا مانگنا جائز ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اذان کے بعد کی جو مسنون دعائیں ہیں یعنی جن دعاؤں کا پڑھنا احادیث سے ثابت ہے ان میں ہاتھ نہ اٹھانا افضل ہے تاہم اگر کوئی اٹھالے تو یہ ناجائز بھی نہیں بشرطیکہ اس کے ہاتھ اٹھانے کو دوسرے لوگ مسنون عمل نہ سمجھنے لگیں اور چونکہ اذان کے بعد کا وقت قبولیت  دُعا کا وقت ہے اس لیے اس وقت میں اگر کوئی شخص اپنی کسی ضرورت کے لیے دعا مانگنا چاہے تو اس کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگے تاہم یہ افضلیت بھی اُس وقت تک ہے جب تک  دوسرے لوگوں کو  اذان کے بعد کی مسنون دُعاؤں میں ہاتھ اٹھانے کی سنیت کا شبہ نہ ہو۔

 

 

شرح سنن ابی داؤد(3/473)میں ہے

عن أنس رضي الله عنه قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يرد الدعاء بين الأذان والإقامة) رواه ابن حبان في الصلاة ولفظه: "الدعاء بين الأذان والإقامة يُستجاب فادعوا” وهذا عام بين كل أذان وإقامة من الصلوات الخمس، وللمؤذن والسامع ومن لم يسمع.

بذل المجہود (3/340) میں ہے:

(عن أم سلمة) رضي الله تعالى عنها (قالت: علمني رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أن أقول ‌عند ‌أذان ‌المغرب: «اللهم إن هذا إقبال ليلك, وإدبار نهارك, وأصوات دعائك, فاغفر لى

قال القاري: الظاهر أن يقال: هذا بعد جواب الأذان أو في أثنائه

لمعات التنقیح (2/435) میں ہے:

وعنه  أى ابن عمر رضى الله عنه:قال: كنا نؤمر بالدعاء ‌عند ‌أذان ‌المغرب. رواه البيهقي في "الدعوات الكبير

قوله: (‌عند ‌أذان ‌المغرب) قد سبق أن الدعاء بعد كل أذان مستحب، ولعله بعد أذان المغرب أوكد وأوجب لاتصال الإقامة بالأذان

مسند احمد(21/271) میں ہے

عن أنس، قال: ” كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌يرفع ‌يديه ‌في ‌الدعاء حتى يرى بياض إبطيه

سنن ابن ماجہ (373)میں ہے

عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌إذا ‌دعوت ‌الله فادع ببطون كفيك، ولا تدع بظهورهما، فإذا فرغت فامسح بهما وجهك»

فتاوی عالمگیری(5/318)میں ہے:

والأفضل في الدعاء أن ‌يبسط ‌كفيه ويكون بينهما فرجة.

حاشیۃ الطحطاوی(588) میں ہے:

ویستحب أن یرفع  يديه عند الدعاء بحذاء صدره.

فیض الباری(2/214)میں ہے:

المسنون في هذا الدعاء(اللهم رب هذه الدعوة التامة) ألا تُرْفَع الأيدي، لأنه لم يَثْبُت عن النبيِّ صلى الله عليه وسلّم ‌رفعها، والتشبُّث فيه بالعمومات بعدما وَرَدَ فيه خصوصُ فعله صلى الله عليه وسلّم لغوٌ، فإنه لو لم يَرِد فيه خصوصُ عادته صلى الله عليه وسلّم لنفعنا التمسُّك بها، وأمَّا إذا نُقِلَ إلينا خصوصُ الفعل، فهو الأُسْوَةُ الحسنة لمن كان يرجو الله والدار الآخرة.

امداد الفتاویٰ (1/334) میں ہے:

الجواب : مجھ کوتتبع روایات کی فرصت نہیں اس لئے درایت سے جوسمجھاہوں اس کونقل کرتاہوں ۔ بہتریہ ہے کہ کسی محقق سے تنقیدکرالی جاوے اگرکسی دلیل سے اس کا خطا ہونا معلوم ہومجھ کوبھی اطلاع کردی جاوے، میں یہ سمجھاہوں کہ دعائیں دوقسم کی ہیں : ایک وقتی حاجت مانگنا بدون توظیف الفاظ کے، احادیث رفع یدین اس کے متعلق ہیں دوسری ادعیہ موظفہ خواہ جوامع ہوں خواہ موقت ہوں احادیث رفع اس کے متعلق نہیں إلا ماورد فیہ بالخصوص اول میں رفع یدافضل ہے اورعدم رفع مباح دوسری میں عدم رفع افضل ہے اوررفع مباح اورہردعامیں رفع کوافضل کہنابہت مستبعد ہے بعض میں تونفی رفع کی قریب قریب مصرح ہے مثلامنکوحہ کی اول خلوت میں یااشتراء رقیق یادابہ میں واردہے۔ فلیأخذ بناصيتها ولیقل: أللهم إني أسألک الخ أخذ ناصية ظاہرہے کہ رفع کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتایامثلاجماع کے وقت اللهم جنبنا الشیطن الخ اسوقت رفع یدکیسے ہوگا؟ یا مثلاًانزال کے وقت:  اللهم لاتجعل الشیطن الخ علی هذا.

کفایت المفتی (3/47) میں ہے:

سوال: اذان کے بعد ہاتھ اٹھا کر  مناجات کرنا کیسا ہے ، اس کا کچھ ثبوت ہے یا نہیں؟

جواب: اذان کے بعد جو الفاظ ادا کیے جاتے ہیں وہ  دعا کے الفاظ ہیں اور رفع یدین آداب دعا میں سے ہے اس لیے ہاتھ اٹھانے میں مضائقہ نہیں۔

فتاویٰ دارالعلوم دیوبند (2/75) میں ہے:

سوال: اذان کی دعا میں ہاتھ اٹھا کر دعا پڑھے مسنون کیا ہے؟

جواب: ہر طرح درست ہے عمل بلا رفع یدین ہے۔

فتاویٰ محمودیہ (5/432) میں ہے:

سوال: بوقت دعائےاذان دست برادشتن چہ حکم دارد؟

جواب: دریں مقام خصوصا رفع یدین وعدم رفع ہیچ در روایتے از نظر نگذشتہ ولیکن چونکہ برائے دعاء مطلقا  رفع یدین مستحب است پس دریں موضع نیز اگر کسے بریں  استحباب عمل نماید گنجایش دارد واگر ترک رفع کند  نیز لا باس بہ است وچوں خصوصا دریں مقام رفع نیز ثابت نیست چنانکہ رفع ثابت نیست پس فوت ثواب استحباب از ترک رفع نیز لازم نہ آید ہکذا فی امداد الفتاویٰ ومجموعۃ الفتاویٰ وغیرہما واز بعض عبارت معلوم میشود کہ عدم رفع افضل است۔

خیر الفتاویٰ (2/215) میں ہے:

جواب: رفع اليدين عند الدعاء فی الجملہ ثابت لیکن ہر دعا میں رفع یدین سرکار دو عالم ﷺ سے ثابت نہیں جیسے مسجد میں دخول و خروج کے وقت بیت الخلاء میں دخول و خروج کے وقت ، جماع وانزال و غیر ذلک بلکہ ان مواقع میں کوئی بھی رفع یدین کا قائل نہیں، لہذا جن مواقع پر آنحضرتﷺ نے رفع یدین نہیں کیا امت کو بھی چاہیے کہ وہ بھی نہ کرے۔ اذان کے بعد دعا میں ہاتھ اٹھانا ثابت نہیں کذافی احسن الفتاوی (297/2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved