استفتاء
1-مغرب سے پہلے دو رکعتیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا مغرب سے پہلے دو رکعتیں ادا کرو تیسری بار فر مایا جس کادل چاہے یہ اس لئے فرمایا کہ کہیں لوگ اسے سنت مؤکدہ نہ بنا لیں
سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب مدینہ میں مؤذن مغرب کی اذان کہتا تو لوگ ستونوں کی طرف دوڑتے اور دو رکعتیں پڑھتے لوگ اس کثرت سے دورکعتیں پڑھتے کہ مسجد میں داخل ہونے والا اجنبی یہ گمان کرتا ہے کہ مغرب کی جماعت ہو چکی ہے
مرثد بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ سیدنا عقبہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے اور کہا کیا یہ عجیب بات نہیں کہ سیدنا ابوتمیم رضی اللہ تعالی عنہ مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے ہیں عقبہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ ہم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پڑھتے تھے اس نے پوچھا اب کیوں نہیں پڑھتے کہنے لگے مصروفیت ہے۔
2-جمعہ کے بعد کی سنتیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی جمعہ کے بعد نماز پڑھنے لگے تو چار رکعت ادا کرے،معلوم ہوا کہ جمعہ کے بعد چار رکعت سنتیں پڑھنی چاہییں اور اگر کوئی دور رکعت بھی پڑھ لے تو جائز ہو گا،سیدناابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے بعد کچھ نماز نہیں پڑھتے تھےیہاں تک کہ اپنے گھر آتے اور دو رکعتیں پڑھتے۔
کیامغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھنی چا ہییں نیزجمعہ کے بعد کتنی سنتیں پڑھنی چاہییں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1-بعض روایات میں مغرب سے پہلے دو رکعات پڑھنے کا جواز ثابت ہے، لیکن مجموعی روایات اور نصوص میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہےکہ مغرب سے پہلے دو رکعت کا ترک کرنا افضل ہے جس کی چند وجوہات ہیں۔
پہلی وجہ یہ ہے :کہ نوافل پڑھنے کی وجہ سے مغرب کی نماز میں تأخیر لازم آتی ہے، حالانکہ نبی علیہ الصلاۃوالسلام نے مغرب میں تعجیل کا حکم فرمایا ہے۔
ابوداؤد (161/1) میں ہے:
عن مرثد بن عبد الله قال لما قدم علينا أبو أيوب غازيا وعقبة بن عامر يومئذ على مصر فأخر المغرب فقام إليه أبو أيوب فقال له ما هذه الصلاة يا عقبة فقال شغلنا. قال أما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول « لا تزال أمتى بخير – أو قال على الفطرة – ما لم يؤخروا المغرب إلى أن تشتبك النجوم .
ترجمہ: حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ مغرب کی نماز میں تاخیر کی تو حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور فرمایا یہ کونسی نماز ہے اے عقبہ، حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم مشغول ہوگئے تھے۔ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:کیا آپ نے رسول اﷲ ﷺسے نہیں سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے کہ ،ہمیشہ میری امت خیر پر رہے گی ،یا آپ نے فرمایا فطرت پر، جب تک مغرب کی نماز میں تأخیر نہیں کرے گی یہاں تک کہ ستارے پھیل جائیں۔
دوسری وجہ یہ ہے :کہ صحابہ کرام کی اکثریت یہ دو رکعات نہیں پڑھتی تھی بالخصوص حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ عنھماسے ان دو رکعتوں کا پڑھنا ثابت نہیں ۔
سنن ابوداؤد(182/1)میں ہے:
عن طاوس قال سئل ابن عمر عن الركعتين قبل المغرب فقال ما رأيت أحدا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يصليهما.
ترجمہ: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعتوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ نبی علیہ السلام کے عہد مبارک میں، میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ وہ یہ دو رکعت پڑھتےہوں۔
شرح مشكل الآثار(123ْ/14) میں ہے :
عن حماد قال سألت إبراهيم عن الصلاة قبل المغرب فنهاني عنها وقال إن النبي صلى الله عليه وسلم وأبا بكر وعمر رضي الله عنهما لم يصلوها قال محمد وبه نأخذ۔
اس سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام نے عام طور پر ان دو رکعات کو ترک کیا ہے، اس لیے ان کا ترک ہی بہتر معلوم ہوتا ہے۔
تیسری وجہ یہ ہے :کہ مغرب کی نماز سے قبل دو رکعت نفل نماز پڑھنا سنت نہیں صرف جائزہے اور اُن کو سنت سمجھ کر پڑھنا مکروہ ہے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو سنت سمجھ کر پڑھنے کو ناپسند فرمایا ہےجبکہ موجودہ دور میں جو لوگ پڑھتے ہیں وہ سنت سمجھ کر پڑھتے ہیں بلکہ باقی سنت مؤکدہ سے بھی زیادہ اہتمام کرتے ہیں چنانچہ ،
صحیح بخاری(59/2) میں ہے:
عن ابن بريدة قال حدثني عبد الله المزني عن النبي صلى الله عليه وسلم قال صلوا قبل صلاة المغرب قال في الثالثة لمن شاء كراهية أن يتخذها الناس سنة۔
درالمختار (36/2) میں ہے:
قوله ( يكره تنزيها ) أفاد أن المراد بالتعجيل أن لا يفصل بين الأذان والإقامة بغير جلسة أو سكتة على الخلاف وأن ما في القنية من استثناء التأخير القليل محمول على ما دون الركعتين وأن الزائد على القليل إلى اشتباك النجوم مكروه تنزيها وما بعده تحريما إلا بعذر كما مر قال في شرح المنية والذي اقتضته الأخبار كراهة التأخير إلى ظهور النجم وما قبله مسكوت عنه فهو على الإباحة وإن كان المستحب التعجيل ا هـ
2-جمعہ کی فرض نمازکے بعد ایک سلام سے چار رکعتیں اس کے بعددو رکعتیں پڑھنی چاہییں ان دونوں کا ثبوت احادیث سے ملتا ہے(چار رکعت کا بھی اور دو رکعت کا بھی )
مسلم (600/1)ترمذی( 446/1)میں ہے:
عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من كان منكم مصليا بعد الجمعة فليصلها أربعا۔
ترجمہ :حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے جو شخص جمعہ کے بعد نماز پڑھے تو اسے چاہیے کہ وہ چار رکعت پڑھے۔
طبرانی(72/2) میں ہے:
عن علي كان رسول الله يصلي قبل الجمعة اربعا وبعدها اربعا۔
ترجمہ :حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ سے پہلے چار رکعت پڑھتے تھے اور جمعہ کے بعد بھی چار رکعت پڑھتے تھے۔
مذکورہ بالا چار رکعت والی روایا ت کے علاوہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت بھی ہے۔
جامع ترمذي(399ْ/2)میں ہے:
عن ابن عمر ان النبی صلی الله علیه وسلم کان یصلی بعد الجمعةرکعتین ۔
ترجمہ :حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
ان دونوں قسم کی روایات کے پیش نظر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل جمعہ کے بعد چھ رکعت پڑھنے کا تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فتوی بھی یہ ہے کہ جمعہ کے بعد چھ رکعت پڑھی جائیں ۔
ترمذی (209/1) میں ہے :
قال أبو عيسى و ابن عمر هو الذي روى عن النبي صلى الله عليه و سلم أنه كان يصلي بعد الجمعة ركعتين في بيته و ابن عمر بعد النبي صلى الله عليه و سلم صلى في المسجد بعد الجمعة ركعتين وصلى بعد الركعتين أربعا
ترجمہ :امام ترمذی رحمہ ا للہ فرماتے ہیں ابن عمر ہی وہ راوی ہیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کیا ہے کہ آپﷺجمعہ کے بعد دو رکعات اپنے گھر میں پڑھتے تھے اور ابن عمر رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے( دنیا سے رخصت ہونے کے)بعد مسجد میں جمعہ کے بعد پہلے دو رکعت پڑھتے پھر چار رکعت پڑھتے ۔
شرح معاني الآثار(209)/1)میں ہے:
عن علي رضي الله عنه أنه قال من كان مصليا بعد الجمعة فليصل ستا۔
ترجمہ:حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ جو شخص جمعہ کے بعد نماز پڑھے اسے چاہیے کہ وہ چھ رکعت پڑھے۔
بدائع الصنائع(638/1)ميں ہے:
وأما بعد الجمعة فوجه قول أبي يوسف أن فيما قلنا جمعا بين قول النبي صلى الله عليه وسلم وبين فعله فإنه روي أنه أمر بالأربع بعد الجمعة وروي أنه صلى ركعتين بعد الجمعة فجمعنا بين قوله وفعله قال أبو يوسف ينبغي أن يصلي أربعا ثم ركعتين كذا روي عن علي رضي الله عنه كيلا يصير متطوعا بعد صلاة الفرض بمثلها وجه ظاهر الرواية ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال من كان مصليا بعد الجمعة فليصل أربعا وما روي من فعله صلى الله عليه وسلم فليس فيه ما يدل على المواظبة ونحن لا نمنع من يصلي بعدها كم شاء غير أنا نقول السنة بعدها أربع ركعات لا غير لما روينا ۔
اعلاء السنن(7/17) میں ہے:
قال الشيخ ويمكن أن يقال بسنية الست كلها بعد الجمعة إلا أن الأربع منها مؤكد ة والركعتان سنة غير مؤكدةأو يقال بتأكيد كلها إلاأن الأربع منها أشد تأكىدا لوردالأمر بها مرفوعاصريحاولم يرد مثله فى مازاد عليها والله تعالى أعلم۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved