• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

“میں قسم کھاتی ہوں میرے اوپر اس بیٹے کا ایک روپیہ بھی حرام ہے” کہنے سے قسم کا حکم

استفتاء

اگر كسی ماں  نے غصے میں قرآن پاک  پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی ہو کہ وہ اپنے بیٹے کے گھر سے کبھی کچھ نہیں کھائے گی پھر اگر بعد میں وہ  راضی  ہوجائے تو اس قسم کا  کیا کفارہ ہوگا جو ادا کرکے وہ اپنی اولاد  کے گھر کھانا پینا کرسکے؟

وضاحت مطلوب ہے: قسم کے الفاظ کیا تھے؟

جواب وضاحت: قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ “میں قسم کھاتی ہوں میرے اوپر اس بیٹے کا ایک روپیہ بھی حرام ہے”

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ماں کو چاہیے کہ  بیٹے سے پیسے لیکر انہیں استعمال کرلے  اور قسم کا کفارہ ادا کردے۔  قسم کا کفارہ یہ ہے کہ  دس فقیروں(مستحق زکوۃ لوگوں) کو دو وقت  کھانا کھلا دے یا دس فقیروں کو فی فقیر پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت دیدے یا دس فقیروں کو ایک ایک جوڑا ،کپڑا دیدے اور  اگر  ماں ایسی غریب ہےکہ نہ تو کھانا کھلا سکتی ہے اور نہ کپڑا پہنا سکتی ہے  تو لگاتار تین روزے رکھ لے۔

توجیہ:مذکورہ صورت کسی حلال چیز کو اپنےا وپر حرام کرنے  کی ہے اور کسی حلال چیز کو قسم کھا کر اپنے اوپر حرام کرنا اگر بلا ضرورت ومصلحت ہو تو یہ گناہ ہے اور قسم کا توڑنا واجب ہے اور اگر کسی ضرورت اور مصلحت سے ہو تو جائز ہے مگر خلاف اولیٰ ہے پھر جس کام کی قسم کھائی ہو وہ کام ایسا ہو کہ اس کا مقابل کام اولیٰ ہو تو قسم کا توڑنا اولیٰ ہے لہٰذا مذکورہ صورت میں اگر بیٹے کا پیسہ اپنے اوپر حرام کرنے کی کوئی مصلحت اور ضرورت نہ تھی تو قسم توڑنا واجب ہے اور اگر کوئی  ضرورت ومصلحت تھی تب بھی قسم کا توڑنا اولیٰ ہے لہٰذا ماں کو چاہیے کہ قسم توڑ کر کفارہ ادا کردے۔

درمختار (5/509) میں ہے:

(و) القسم أيضا بقوله (أقسم أو أحلف أو أعزم أو أشهد).

شامی(5/527) میں ہے:

‌وحاصله ‌أن ‌المحلوف عليه إما فعل أو ترك، وكل منهما إما معصية وهي مسألة المتن، أو واجب كحلفه ليصلين الظهر اليوم وبره فرض، أو هو أولى من غيره أو غيره أولى منه كحلفه على ترك وطء زوجته شهرا ونحوه وحنثه أولى، أو مستويان كحلفه لا يأكل هذا الخبز مثلا وبره أولى

فتاویٰ تاتارخانیہ (6/300) میں ہے:

كفارة اليمين ما ذكره الله تعالى في قوله (لا  يؤاخذكم الله باللغو في أيمانكم ولكن يؤاخذكم بما عقدتم الإيمان فكفارته إطعام عشرة مساكين من أوسط ما تطعمون أهليكم أو كسوتهم أو تحرير رقبة) بعد هذا ينظر إن كان الحالف موسراً فكفارته أحد الأشياء الثلاثة ولا يجزيه الصوم وإن كان معسراً فكفارته الصوم.

معارف القرآن (6/499) میں ہے:

مسئلہ: کسی حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرنے کی تین صورتیں ہیں جن کا مفصل ذکر سورہ مائدہ کی آیت “يٰاَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا  طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللهُ لَكُم، کے تحت معارف القرآن جلد سوم میں آچکا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی حلال قطعی کو عقیدۃً حرام قرار دے تو یہ کفر اور گناہِ عظیم ہے۔ اور اگر عقیدۃً حرام نہ سمجھے  مگر بلا کسی ضرورت ومصلحت  کے قسم کھا کراپنے اوپر حرام کرلے تو یہ گناہ ہے اس قسم کو توڑنا اور کفارہ ادا کرنا اس پر واجب ہے  جس کا ذکر آگے آتا ہے ۔ اور کوئی ضرورت و مصلحت ہو تو جائز، مگر خلاف اولی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved