• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مرد و عورت کے لیے قضائے عمری کا طریقہ کیا ہے؟

استفتاء

مرد وعورت  دونوں  کے لئے  نماز   اور روزے   کی قضاء  عمری کے احکامات  اور ان کے اندازوں کے   حساب  لگانے  پر رہنمائی  فرمادیجئے   اگر کوئی کتاب   ہو      تو رہنمائی   فرمادیں   ۔ جزاک اللہ

وضاحت  مطلوب ؛اپنا  سوال  تھوڑا  مزید  واضح کریں ؟ نیز  سوال  کا پس  منظر  کیاہے  ؟

جواب وضاحت :مثلاً  زید  کی عمر  تقریباً  45  سال ہے وہ اور انکی  اہلیہ  دونوں نماز  نہیں پڑھتے تھے  کبھی کبھار  پڑھ  بھی لیتے  تھے  مثلاً جمعہ  وغیرہ   یا پانچ  نمازوں   میں سے کوئی  ایک پڑھ لی   اب  ان کو اللہ تعالی نے توفیق دی ہے  وہ اپنی قضاء  نمازیں     پڑھنا  چاہتے ہیں اور  روزے    جو رہتے  ہیں   وہ بھی   ادا  کر نا چاہتے ہیں   معلوم  یہ کر نا ہے  کہ وہ قضا عمری کیلئے  کس عمر  سے حساب  لگائیں   اور خا تون  اپنے  حیض اور  نفاس  کے دنوں  کی  کیلکو لیشن  کس  طرح  کرے  گی   کیو نکہ   اس کے تین  بچے  بھی  ہیں اور   کس طرح  تخمینہ   لگا  یا جا     ئے    زید اور        مسززیدکو   کتنی نمازیں  اور کتنے روزے   اداکرنے ہوں گے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں قضائے عمری کے لئے نماز اور روزوں کا حساب لگانے کا طریقہ یہ ہے کہ زید اور مسز زید( زید کی بیوی )اپنے اپنے بالغ ہونے کا اندازہ کریں کہ وہ کب بالغ ہوئے تھے اگر کچھ اندازہ نہ ہو سکے تو چاند کے لحاظ سے پندرہ سال مکمل ہونے  پر ہر ایک کو بالغ سمجھا جائے گا ۔اس کے بعد ہر ایک اپنا اپنا اندازہ کرے کہ اس کی کون کون سی کتنی نمازیں قضا ہوئی ہیں اور کتنے روزے قضا ہوئے ہیں بس جو غالب اندازہ ہو اس کے مطابق نماز اور روزوں کی قضا کر لیں ۔

نوٹ :حیض اور نفاس کے دنوں میں جو روزے چھوٹے ہیں ان کی بھی قضا کرنا ضروری ہے البتہ جو نمازیں  چھوٹی ہیں  ان کی قضانہیں ہے ،حیض و نفاس کے دن معلوم ہوں  تو اس کے مطابق نمازیں کم کر لیں ورنہ حیض و نفاس کے دنوں کا بھی اندازہ لگائیں اور جو غالب گمان ہو اس کے بقدر نمازوں کی قضا نہیں ۔

باقی رہا نیت  کرنے کا مسئلہ تو اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ  یوں  نیت کر لیا کریں کہ آخری  یا پہلی فجر کی وہ نماز جو مجھ سے قضا ہوئی اسے ادا کرنے کی نیت کرتا ہوں/ کرتی ہوں باقی نمازوں اور روزوں کی نیت کرنے کا طریقہ بھی یہی ہے نیز سفری نمازوں کی قضا بھی سفری ہوگی اور وتر کی نماز کی بھی قضا ہوگی البتہ سنن اور نوافل کی قضا نہیں ۔

حاشية الطحطاوی على مراقی الفلاح (ص448)میں ہے

"من لا يدري كمية الفوائت يعمل بأكبر رأيه فإن لم يكن له رأي يقض حتى يتيقن أنه لم يبق عليه شيء”

ہدایہ (1/155) میں ہے

"وإن فاتته أكثر من صلاة يوم وليلة أجزأته التي بدأبها”

فتاوی شامی (2/ 76) میں ہے

قوله ( كثرت الفوائت الخ ) مثاله لو فاته صلاة الخميس والجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين لأن فجر الخميس مثلا غير فجر الجمعة فإن أراد تسهيل الأمر يقول أول فجر مثلا فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولا أو يقول آخر فجر فإن ما قبله يصير آخرا ولا يضره عكس الترتيب لسقوطه بكثرة الفوائت

بحر الرائق(2/141)میں ہے

فالأصل فيه أن كل صلاة فاتت عن الوقت بعد ثبوت وجوبها فيه فإنه يلزم قضاؤها سواء تركها عمدا أو سهوا أو بسبب نوم وسواء كانت الفوائت كثيرة أو قليلة۔۔۔ وقد قالوا إنما تقضى الصلوات الخمس والوتر ۔۔۔وسنة الفجر تبعا للفرض قبل الزوال

بدائع الصنائع (2/ 103) میں ہے

أما أصل الوجوب فلقوله تعالى { فمن كان منكم مريضا أو على سفر فعدة من أيام أخر } فأفطر فعدة من أيام أخر ولأن الأصل في العبادة المؤقتة إذا فاتت عن وقتها أن تقضى لما ذكرنا في كتاب الصلاة وسواء فاتته صوم رمضان بعذر أو بغير عذر لأنه لما وجب على المعذور فلأن يجب على المقصر أولى ولأن المعنى يجمعهما وهو الحاجة إلى جبر الفائت بل حاجة غير المعذور أشد

ہدایہ (1/ 129) میں ہے

"وإذا حاضت المرأة أو نفست أفطرت وقضت بخلاف الصلاة لأنها تحرج في قضائها وقد مر في الصلاة”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved