• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مریض کی پیچیدہ حالت میں نماز کو مؤخر کرنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ(1)  اگرنماز کا وقت تنگ ہے اورقضاء ہونے کاخدشہ ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ کسی ڈاکٹر کا مریض ایسا آگیا کہ جس کی حالت بہت پیچیدہ ہے اور سینئر کی طرف سے مریض کو چھوڑ کر جانے کی اجازت نہیں تو کیاکیا جائے؟(2) نیز سینئر ڈاکٹر خود اس صورت حال میں ہو تو کیا کرے جان بچائے یا نماز پڑھے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(۱)جہاں ایسے خدشات ہوں وہاں بہتر یہ ہے کہ نماز پہلے ہی پڑھ لی جائے تاکہ قضاء کی نوبت ہی نہ آئے تاہم کسی وجہ سےنماز پہلےنہ پڑھی گئی ہو اور ایسا  مریض آگیا جس کی حالت ایسی ہے کہ فوراً علاج نہ کیا تو موت کاخوف ہے  تواگر آپریشن تھیٹر میں ہی  ایک طرف مصلی بچھا کر نما ز پڑھنا ممکن ہوتو نماز پڑھ لے ورنہ نماز مؤخر کردے اوربعد میں  قضاء کرے۔

(۲)سینئر ڈاکٹر کے لئے بھی یہی حکم ہےکہ اگر مریض کی موت کا خوف ہے  اور آپریشن تھیٹر میں ایک طرف مصلی بچھا کر نما ز پڑھنا ممکن نہ ہوتو نماز مؤخر کردے اور علاج سے فارغ ہوتے ہی قضاء کرلے ۔

ہندیہ(171/1) میں ہے:القابلة لو اشتغلت بالصلاة تخاف موت الولد جاز لها أن تؤخر الصلاة عن وقتهاردالمحتار مع الشامی (626/2)  میں ہے:ومن العذر العدو وخوف القابلة موت الولدقال الشامي تحت قوله ( وخوف القابلة الخ ) وكذا خوف أمه إذا خرج رأسه وما ذكروه من أنها لا يجوز لها تأخير الصلاة وتضع تحتها طستا وتصلي فذاك عند عدم الخوف عليه كما لا يخفىحاشیۃ الطحطاوی علی الدر(303/1) میں ہے:ومن العذر العدو وخوف القابلة موت الولدقال الطحطاوي تحت قوله (وخوف القابلة) أما اذا ظنت ذلك يجب عليها التأخير۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved