• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مسبوق کے تکبیر تحریمہ کہتے ہی امام نے سلام پھیر دیا تو مسبوق بقیہ نماز کیسے پوری کرے؟

استفتاء

اگر کوئی مسبوق (تاخیر سے پہنچنے والا مقتدی) امام کے قعدہ ثانیہ (آخری تشہد) کے دوران جماعت میں شامل ہو، اور وہ تکبیر تحریمہ کہہ کر ابھی بیٹھنے نہ پائے کہ امام سلام پھیر دے  تو ایسی صورت میں:

1.کیا اس کی جماعت شمار ہوگی؟

2.اگر جماعت مل گئی ہے، تو کیا اس پر تشہد پڑھنا واجب ہے؟

3.اگر تشہد واجب ہو اور وہ نہ پڑھا جائے، تو کیا سجدہ سہو لازم آئے گا ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔مذکورہ صورت میں  یہ شخص جماعت میں تو شریک ہوجائے گا لہٰذا  اس سے آگے نماز اسی تکبیر تحریمہ سے پوری کرے گا، دوبارہ تکبیر تحریمہ کہنے کی ضرورت نہیں لیکن اسے  جماعت پانے والا  شمار  نہیں کیا جائے گا بلکہ جماعت کا ثواب  پانے والا شمار کیا جائے گا۔

2۔ اس پر تشہد پڑھنا واجب نہیں کیونکہ مسبوق پر امام کی متابعت کی بناء پر اس رکن کو ادا کرنا واجب ہوتا ہے جس میں  تکبیر تحریمہ  کے بعد امام کے ساتھ شریک ہونا اس کے لیے ممکن ہو، مذکورہ   صورت میں چونکہ مسبوق کو امام کے ساتھ قعدہ اخیرہ  میں شریک ہونے کا موقع ہی نہیں ملا لہٰذا اس پر قعدہ  اخیرہ واجب نہیں ہوا اور جب قعدہ واجب نہیں ہوا تو تشہد پڑھنا بھی واجب نہیں ہوا۔

3۔ چونکہ مذکورہ صورت میں  اس  پر تشہد پڑھنا واجب نہیں لہٰذا نہ پڑھنے پر سجدہ سہو بھی  لازم نہیں آئے گا۔

الدرالمختار مع رد المحتار(2/ 514) میں ہے:

(ولا يكون مصليا جماعة) اتفاقا (من أدرك ركعة من ذوات الأربع) لأنه ينفرد ببعضها (لکنه ادرک فضلها) ولو بادراك التشهد اتفاقا لكن ثوابه دون المدرك لفوات التكبيرة الأولى، واللاحق كالمدرك لكونه مؤتما حكما (وكذا مدرك الثلاث) لا يكون مصليا بجماعة (على الأظهر) . وقال السرخسي: للأكثر حكم الكل، وضعفه في البحر.

قوله: ( لكنه أدرك فضلها ) أى الجماعة اتفاقا أيضا لأن من أدرك آخر الشئ فقد أدركه.

(قوله وضعفه في البحر) أي بما اتفقوا عليه في الأيمان من أنه لو حلف لا يأكل هذا الرغيف لا يحنث إلا بأكل كله، فإن الأكثر لا يقام مقام الكل.

المبسوط للسرخسی (2/94) میں ہے:

‌ولو ‌انتهى ‌إلى ‌الإمام، وهو ساجد فكبر ثم رفع الإمام رأسه وسجد السجدة الثانية، ولم يسجد هذا الرجل معه واحدة من السجدتين فعليه أن يتبعه في السجدة الثانية دون الأولى؛ لأن هاتين السجدتين لا يحتسب بهما من صلاته لعدم شرطه، وهو تقدم الركوع فإن الركوع افتتاح السجود، ولم يوجد في حقه، وإنما يأتي بهما لمتابعة الإمام فإنما يلزمه المتابعة فيما أتى به الإمام بعدما صار هو مقتديا به، وقد سجد الإمام السجدة الأولى قبل أن يصير هو مقتديا به فلا تلزمه ذلك السجدة للمتابعة، وسجد السجدة الثانية بعدما صار هو مقتديا به فعليه أن يأتي بها ما لم يركع الإمام الركعة الأخرى ويسجد.

حلبۃ المجلی  شرح منیۃ المصلی ، لابن امیر  الحاج (2/125) میں ہے:

في نوادر المعلى: ورأيت ابا يوسف جاء الى الامام وهو ساجد فكبر وخر ليسجد فرفع الامام رأسه قبل أن يسجد فمضى في صلاته ولم يسجد تلك السجدة

فتاوی دارالعلوم دیوبند(1/237) میں ہے:

سوال: زید نے تکبیر تحریمہ کہی اور امام نے سلام پھیر دیا اور زید نے امام کی شرکت قعود میں بالکل نہیں کی تو اب زید کو دوبارہ تکبیر تحریمہ کہنی چاہئیے یا اول ہی کی تکبیر تحریمہ کافی ہے؟

جواب: اگر پوری تکبیر تحریمہ یعنی اللہ اکبر امام کے سلام سے پہلے کہہ چکا تو وہ شریک جماعت ہو گیا اب اس کو دوبارہ تکبیر کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ قال في الحلية عند قول المنية ولا دخول في الصلوة الا بتكبيرة الافتتاح الخ۔شامی

فتاوی رحیمیہ(5/28) میں ہے:

سوال: مقتدی نے تکبیر تحریمہ کہا اور امام نے سلام پھیر دیا تو اب اسے بیٹھ کر کھڑا ہونا چاہیے یا کھڑے ہی کھڑے قراءت شروع کر دے۔۔۔۔۔الخ

 جواب: مسبوق نے تکبیر تحریمہ کہی اس کے بعد امام نے سلام پھیر دیا تو یہ شخص جماعت میں شریک ہو گیا اپنی نماز شروع کرے قعدہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔الخ

کفایت المفتی(3/140) میں ہے:

سوال: مقتدی بہ نیت اقتدا صرف تکبیر تحریمہ ہی کہنے پایا تھا کہ امام نے سلام پھیر دیا تو کیا مقتدی اس تحریمہ سے نماز پوری کر لے یا باردگر انفرادی نیت کر کے تحریمہ کہہ کر نماز شروع کرے؟

جواب: اگر سلام سے پہلے مقتدی نے تکبیر تحریمہ ختم کر لی تھی تو وہ نماز میں شریک ہو گیا اور اسی نماز کو پورا کر لے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved