• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مسبوق کا بقیہ نماز پورا کرنے کا طریقہ

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

1۔کیا یہ طریقہ حنفی مسلک کے موافق ہے؟

2۔کیا دوسری رکعت بسم اللہ سے شروع کی جائے یا الحمد شریف سے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1) مذکورہ طریقہ حنفی مسلک کے موافق ہے ۔

میں ہے۔ (2/417)شامی

والمسبوق من سبقه الامام بها (بكل ركعات )او ببعضها وهو منفردا حتى يثنى ويتعوذ ويقرأ۔۔۔ فيما يقضيه اي :بعد متابعة لامامه فلو قبلها فالاظهر الفساد، و يقضي اول صلاته في حق قراءته، وآخرها في حق تشهد، فمدرك ركعة من غير فجر يأتي بركعتين بفاتحة وسورة وتشهد بينهما، و برابعة الرباعي بفاتحة فقط ولا يقعد قبلها

فتاویٰ ہندیہ(1/191) میں ہے:

فاذا قام الى قضاء ما سبق ياتي بالثناء ويتعوذ للقرأة كذا في فتاوى قاضيخان

فتاویٰ ہندیہ (1/193)میں ہے:

ولو ادرك ركعتين قضي ركعتين بقراءة

عمدۃالفقہ (2/222)میں ہے:

مسبوق جب امام کے فارغ ہونے کے بعد اپنی بقیہ نماز پڑھتا ہے وہ قرأت کے حق میں اس کی پہلی نماز ہے اورتشہد کے حق میں اس کی آخری نماز ہے ۔۔۔۔۔اگر چار رکعت والی نمازوں میں ایک رکعت امام کے ساتھ ملی تو مسبوق کو چاہیے کہ ایک رکعت ثناء وتعوذ بسم اللہ والحمد للہ وسورت کے ساتھ پڑھ کر قعدہ کرے اور تشہد پڑھے ۔۔۔پھر کھڑا ہو کر ایک رکعت  الحمد اور سورت کے ساتھ پڑھ کرقعدہ  نہ کرے بلکہ کھڑا ہو جائے ۔اب تیسری رکعت میں اس کو اختیار ہے خواہ الحمد پڑھے یا ترک کرےلیکن پڑھنا افضل ہے لیکن اس میں سورت نہ ملائے۔

اگر امام کے ساتھ دو رکعتیں ملیں تو باقی دونوں میں الحمد  اور سورت پڑھے۔۔۔ اور ان دو کے بعدقعدہ کرے اور تشہد پڑھے اور نماز پوری کرے۔اور اگر ایک رکعت  گئی ہو تو عام صورت ہے یعنی ثنا ء وتعوذ و قرأت کے ساتھ پڑھ کر قاعدہ کر کے سلام پھیرے۔

فتاویٰ ہندیہ (1/191)میں ہے:

انه اذا ادرك الامام في القراءة في الركعة التي يجهر فيها لا ياتي بالثناء كذا في الخلاصه هو الصحيح كذا في التجنيس وهو الأصح هكذا في الوجيز للكردري سواء كان قريبا أو بعيدا أو لا يسمع لصممه هكذا في الخلاصة

درمختار (2/231)میں ہے:

(وقرأ) كما كبر (سبحانك اللهم تاركا) وجل ثناؤك إلا في الجنازة (مقتصرا عليه) فلا يضم وجهت وجهي إلا في النافلة، ولا تفسد بقوله.(وأنا أول المسلمين).في الاصح (إلا إذا) شرع الامام في القراءة، سواء (كان مسبوقا) أو مدركا (و) سواء كان (إمامه يجهر بالقراءة) أو لا (فإنه) (لا يأتي به)

.2دوسری رکعت اور اسی طرح  تیسری اور چوتھی رکعت کو بسم اللہ سے شروع کرنا سنت ہے۔

بحرالرائق (1/544)میں ہے:

قوله (وسمى سرا في كل ركعة) أي ثم يسمي المصلي بأن يقول بسم الله الرحمن الرحيم. هذا هو المراد بالتسمية هنا، وأما في الوضوء والذبيحة فالمراد منها ذكر الله تعالى. والمراد بالمصلي هنا الامام

أو المنفرد، أما المقتدي فلا دخل له فيها فإنه لايقرأ بدليل أنه قدم أنه لا يتعوذ، وقد عدها المصنف فيما سبق من السنن وهو المشهورعن أهل المذهب. وقد صحح الزاهدي في شرحه.

فتاویٰ ہندیہ) (1/144میں ہے:

(ثم ياتي بالتسمية) وياتي بها في كل ركعة وهو قول ابي يوسف كذا في المحيط وفي الحجة وعليه الفتوى

عمدۃالفقہ (2/103)میں ہے:

(نماز کی سنتیں)  پھر ہر رکعت کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved