- فتوی نمبر: 33-247
- تاریخ: 28 جون 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وقف کا بیان > مساجد کے احکام
استفتاء
اگر کوئی شخص مسجد کی تعمیر سے پہلے یہ نیت کرلے کہ مسجد کے اخراجات پورے کرنے کے لیے نیچے دکانیں بنائی جائیں گی یا مسجد کا بیسمنٹ بطور مدرسہ طلباء کے لیے بنایا جائے گا یا مسجد کی دوسری منزل بطور مدرسہ طلباء یا طالبات کے لیے ہوگی اگر اس طرح کرلیا جائے تو اس مسجد کو شرعی مسجد کہا جائے گا یا مصلیٰ؟
نیز یہ بھی وضاحت فرمائیں کہ یہ نیت مسجد کی جگہ خریدنے سے پہلے ضروری ہے یا زمین خریدنے کے بعد مسجد کی تعمیر سے پہلے بھی کی جاسکتی ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مسجد کی تعمیر سے پہلے مسجد کے مصارف کے لیے نیچے دکانیں بنانا اور اس کی آمدنی مسجد کے مصارف میں خرچ کرنا اور اسی طرح بالائی منزل یا بیسمنٹ بطور مدرسہ (تاکہ اس میں دینی تعلیم ہو) استعمال کرنا جائز ہے اور اس وجہ سے مسجد، مسجد شرعی ہی ہوگی۔
مذکورہ کام کی نیت مسجد کی جگہ خریدنے سے پہلے بھی کی جا سکتی ہے اور مسجد کی جگہ خریدنے کے بعد اس جگہ میں نماز کی جگہ متعین کرنے سے پہلے بھی کی جا سکتی ہے۔ مسجد کی جگہ متعین کرنے کا مطلب یہ ہے کہ نماز پڑھنے کے لیے زمین متعین کر کے وہاں نماز پڑھ لی جائے۔ نماز کے لیے جگہ متعین ہونے کے بعد اس میں تبدیلی کرنا جائز نہ ہو گا، خواہ ابھی تعمیر شروع کی ہو یا نہ کی ہو۔
شامی (6/548) میں ہے:
(وإذا جعل تحته سردابا لمصالحه) أي المسجد (جاز) كمسجد القدس (ولو جعل لغيرها أو) جعل (فوقه بيتا وجعل باب المسجد إلى طريق وعزله عن ملكه لا) يكون مسجدا
تقرير الرافعى: (قوله: لمصالح المسجد) ليس بقيد بل الحكم كذلك اذا كان ينتفع به عامة المسلمين على ما أفاده فى غاية البيان حيث قال اورد الفقيه ابو الليث سؤالا وجوابا فقال فإن قيل أليس مسجد بيت المقدس تحته مجتمع الماء والناس ينتفعون به قيل اذا كان تحته شئ ينتفع به عامة المسلمين يجوز لانه اذا انتفع به عامتهم صار ذلك لله تعالى أيضا ومنه يعلم حكم كثير من مساجد مصر التى تحتها صهاريج ونحوها.
(قوله أو جعل فوقه بيتا إلخ) ظاهره أنه لا فرق بين أن يكون البيت للمسجد أو لا إلا أنه يؤخذ من التعليل أن محل عدم كونه مسجدا فيما إذا لم يكن وقفا على مصالح المسجد وبه صرح في الإسعاف فقال: وإذا كان السرداب أو العلو لمصالح المسجد أو كانا وقفا عليه صار مسجدا. اهـ. شرنبلالية قال في البحر: وحاصله أن شرط كونه مسجدا أن يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه لقوله تعالى {وأن المساجد لله} [الجن: 18]- بخلاف ما إذا كان السرداب والعلو موقوفا لمصالح المسجد، فهو كسرداب بيت المقدس هذا هو ظاهر الرواية.
البحر الرائق (2/ 30) میں ہے:
«لأن المسجد ما بني إلا لها من صلاة واعتكاف وذكر شرعي وتعليم علم وتعلمه وقراءة قرآن»
امداد الاحکام (3/269) میں ہے:
سوال: ایک شخص مسجد اس طرح بنانا چاہتا ہے کہ اس کے نیچے دکانیں ہوں اور اوپر مسجد ہو اور دکانیں مسجد کے پورے حصے کے نیچے رکھنا چاہتا ہے ، یہ صورت جائز ہے یا نہیں؟ اگر یہ صورت جائز نہیں تو اگر وہ مسجد کے مسقف حصے کے نیچے حوض رکھے اور صحن مسجد کے نیچے دکانیں رکھے، یہ بھی جائز ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا
الجواب: مسجد کے نیچے دکانیں بنانا اس صورت میں ناجائز ہے جبکہ اوّل مسجد تیار کرلی گئی ہو پھر اس کے نیچے تہ خانہ بنا کر دکان بنائی جائے اور اگر ابتدا ہی سے یہ صورت ہو کہ اول دکانیں بنائی جائیں پھر ان کے اوپر مسجد بنائی جائے تو یہ جائز ہے بشرطیکہ یہ دکانیں مصالح مسجد کے لئے ہوں اور مسجد ہی پر وقف ہوں۔
احسن الفتاوی (6/429) میں ہے:
سوال : شریعتِ مطہرہ کا حکم اس بارے میں کیا ہے کہ مسجد کے کونے میں وضو کے لیے ٹینکی بنانا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: اگر یہ جگہ ابتدا ء ہی سے مسجد میں داخل نہ کی جاتی تو اس میں ٹینکی بنانا جائز تھا، مسجد میں داخل کرنے کے بعد اس میں ٹینکی بنانا اور مسجد سے خارج کرنا جائز نہیں ہے اگر مسجد کی حدود متعین کر کے زبان سے بھی اس کا اظہار کر دیا کہ اتنی جگہ مسجد ہے اس کے بعد بانی مسجد نے کہا کہ اس جگہ شروع ہی سے میری نیت ٹینکی بنوانے کی تھی تو اس کا یہ قول قبول نہ کیا جائے گا۔ سو، جب بانی مسجد کا ابتدائی سے اس جگہ کو وضو کے لیے متعین کرنا ثابت نہ ہوا تو یہ جگہ مسجد میں داخل رہے گی اور مسجد میں وضو کا پانی گرانا جائز نہیں ۔
یہ شبہ نہ کیا جائے کہ وضو کا پانی فرش ِمسجد نیچے نالی میں گرے گا اس لیے کہ تحت الثری سے لے کر عنان السماء تک یہ جگہ بحکم مسجد ہے۔نیز ٹینکی بنانے سے نمازیوں پر تضییق ہوگی جو کہ ممنوع ہے اگر مسجد وسیع ہو اور ٹنکی بنانے کے باوجود نمازیوں پر تضییق کا خطرہ نہ ہو تو بھی ما اعد للصلوة کو مشغول کرنا جائز نہیں۔
قال في البحر لو بنى بيتا على سطح المسجد لسكن الامام فانه لا يضر في كونه مسجدا لانه من المصالح فان قلت لو جعل مسجدا ثم اراد ان يبنى فوقه بيتا للامام او غيره هل له ذلك.
قلت فى التتارخانية: اذا بنا مسجدا او بنى فوقه وهو اي المسجد في يديه فله ذلك وان كان حين بناه خلا بينه وبين الناس ثم جاء بعد ذلك يبنى لا يتركه وفي الجامع الفتاوى اذا قال عنيت ذلك فانه لا يصدق.
وقال شارح التنویر في بيان محرمات المساجد والوضوء الا فيما اعد لذلك.
وفي شامية: قوله والوضوء لان ماءه مستقذر طبعا يجب تنزيه المسجد عنه كما يجب تنزيهه عن المخاط والبلغم بدائع.
وایضاً فی الشرح لانه مسجد الی عنان السماء.
وفی الشامية: وکذا الی تحت الثریٰ.
وفی الشامية فی بیان الأشجار فی المسجد ولایضیق علی الناس (وبعد اسطر) لان فيه شغل ما اعد للصلوة ونحوها وان کان المسجد واسعا.
امداد الفتاویٰ (6/189) میں ہے:
سوال(۱۵۴۹) : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگر مسجد بالائی منزل پر ہو اور اُس کے نیچے کا خلا ضروریات و منافع و مصالح مسجد کے لئے مستعمل ہو تو مسجد مسجد کا حکم رکھتی ہے یا نہیں اور اس طرح مسجد کی تعمیر جائز ہے یا نہیں ؟
الجواب: في الدرالمختار: إن جعل تحته سردابا لمصالح المسجد جاز کمسجد القدس ولو جعل لغیرها أو جعل فوقه بیتاً وجعل باب المسجد إلیٰ طریق وعزله عن ملكه لا (إلیٰ قوله) أما لو تمت المسجدية، ثم أراد البناء منع ولو قال عنیت ذلک لم یصدق (تا تارخانية) فإذا کان هذا في الواقف فکیف بغیره فیجب هدمه ولوعلیٰ جدار المسجد ولایجوز أخذ الأجرة منه ولا أن یجعل شیئاً منه مشتغلا ولاسکنی، بزازية (ص ۵۷۲ ، ج ۳) اس روایت سے معلوم ہوا کہ اگر مسجدیت کے مکمل ہونے کے قبل ایسا کیا جاوے تو جائز ہے ورنہ ناجائز۔
امداد الاحکام (3/229) میں ہے:
سوال : بانی مسجد سے ہمیشہ نماز پڑھنے کا اذن عام ملنے پر مسجد شرعاً کب سے مسجد تسلیم کی جاتی ہے؟
جواب: بانی مسجد سے ہمیشہ نماز پڑھنے کے اذن عام ملنے پر جس وقت سے اس میں نماز باجماعت پڑھی جائے اس وقت سے وہ شرعاً مسجد تسلیم کی جاتی ہے جیسا کہ کنزالدقائق میں ہے:وبالصلاة بجماعة يقع التسليم بلا خلاف حتى أنه إذا بنى مسجدا واذن للناس بالصلاة فيه فإنه يصير مسجدا. قاضی خان میں ہے: ثم التسليم في المسجد أن يصلي فيه بالجماعة باذنه.رد المحتار میں ہے: حتى إذا بنى مسجدا واذن للناس بالصلاة فيه بجماعة فانه يصير مسجدا.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved