• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مسجد کے اندر اذان دینے کا حکم

استفتاء

1۔ مسجد کی حدود میں کھڑے ہو کر اذان دینے کا کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ اذان سے مقصود یہ ہے کہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے تاکہ لوگ اپنے اپنے کاموں سے فارغ ہو کر جماعت میں شریک ہونے کا اہتمام کریں۔ لہذا اذان ایسی جگہ دینی چاہیے جہاں سے بسہولت اذان کی آواز عام لوگوں تک پہنچ جائے۔ خواہ وہ جگہ مسجد میں ہو یا مسجد سے باہر کوئی جگہ ہو۔ پہلے زمانے میں عام طور سے لاؤڈ اسپیکر کا انتظام نہیں تھا، اس لیے مسجد کے اندرونی حصہ میں اذان کہنے کو فقہاء کرام رحمہم اللہ نے مکروہ لکھا کیونکہ ایسی صورت میں اذان کی آواز عام طور سے لوگوں تک نہیں پہنچ پاتی۔ اگر کراہت کی وجہ محض مسجد ہوتی تو مسجد کی چھت پر اذان کہنا بھی مکروہ ہوتا کیونکہ مسجد کی چھت بھی مسجد میں شامل ہے، حالانکہ خود حدیث سے مسجد کی چھت پر اذان کہنا ثابت ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے:

وقال ابن سعد بالسند إلى أم زيد بن ثابت: كان بيتي أطول بيت حول المسجد فكان بلال يؤذن فوقه من أول ما أذن إلى أن بنى رسول الله صلى الله عليه و سلم مسجده فكان يؤذن بعد على ظهر المسجد و قد رفع له شيء فوق ظهره. (رد المحتار: 2/ 67)

ترجمہ؛ حضرت ام زید بن ثابت رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میرا گھر مسجد کے اردگرد تمام گھروں سے اونچا تھا، حضرت بلال رضی اللہ عنہ شروع سے اسی پر چڑھ کر اذان دیتے تھے، جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی مسجد تعمیر کروا لی تو اس کے بعد پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ مسجد کی چھت پر چڑھ کر اذان دیتے تھے اور مسجد کی چھت پر ان کے لیے اونچی چیز رکھی گئی تھی۔

ہمارے دور میں چونکہ عموماً اذان لاؤڈ اسپیکر پر دی جاتی ہے اس لیے اب اذان خواہ مسجد کے اندرونی حصہ میں دی جائے یا باہر دی جائے، اس میں کچھ کراہت نہیں۔

في إعلاء السنن (8/ 87- 86):

و اعلم أن الأذان لا يكره في المسجد مطلقاً كما فهم بعضهم من بعض العبارات الفقهية و عمموه هذا الأذان بل مقيد بما إذا كان المقصود إعلام ناس غير حاضرين كما في رد المحتار و في السراج: و ينبغي للمؤذن أن يؤذن في موضع يكون أسمع للجيران و يرفع صوته و لا يجهد نفسه لأنه يتضرر … لكن في الجلابي: أنه يؤذن في المسجد …. فقوله (في المسجد) صريح في عدم كراهة الأذان في داخل المسجد و إنما هو خلاف أولى إذا مست الحاجة إلى الإعلان البالغ و هو المراد بالكراهة المنقولة في بعض الكتب، فافهم.

و في الفتاوى الهندية (1/ 55):

و ينبغي أن يؤذن على المأذنة أو خارج المسجد و لا يؤذن في المسجد.

 و في خلاصة الفتاوى (1/ 49)

و ينبغي أن يؤذن على الميذنة أو خارج المسجد و لا يؤذن في المسجد.

و في الخانية على هامش الفتاوى الهندية (1/ 88)

و ينبغي أن يؤذن على المأذنة أو خارج المسجد و لا يؤذن في المسجد.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved