- فتوی نمبر: 30-392
- تاریخ: 02 جولائی 2023
- عنوانات: خاندانی معاملات > منتقل شدہ فی خاندانی معاملات
استفتاء
واقف نے تین سال پہلے مسجد کے لیے زمین وقف کی تھی ، لیکن وہاں پر پہلے سے ہی مسجد موجود ہے جو لوگوں کے لیے کافی ہے اگر واقف جس نے زمین مسجد کے لیے وقف کر دی ہے جبکہ اس پر کوئی آبادی وغیرہ نہیں ہوئی ، اس سے رجوع کر نا چاہے تو کیا رجوع کرسکتاہے اور اس پر مدرسہ بنا سکتا ہے؟
تنقیح: اس زمین پر کوئی نماز نہیں پڑھی گئی نہ کوئی تعمیر ہوئی ۔ واقف خود حیات ہے کسی کو متولی نہیں بنایا ۔
واقف نے تحریراً وقف کیا ہے جس کی عبارت یوں ہے :آج مسمی بشیر احمد ولد عبد الکریم نے حاضر آکر بیان کیا کہ میں نے اپنا رقبہ تعدادی اٹھارہ مرلے اللہ والی مسجد بلال مثالی گاؤں مطوعہ کو وقف کردی ہے ۔( اس زمین پر جو مسجد تعمیر کرنی ہے اس کا نام پہلے سے اللہ والی مسجد رکھ دیا ہے )۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں واقف رجوع کرسکتا ہے اور اس جگہ پر مدرسہ بنا سکتا ہے ۔
توجیہ:مذکورہ صورت میں جب اس زمین پر اذان دے کر کوئی نماز نہیں پڑھی گئی اور نہ یہ جگہ کسی متولی کے حوالے کی گئی تو یہ وقف تام نہیں ہوا لہٰذا اس سے رجوع کرنا اور اس جگہ مدرسہ بنانا جائز ہے ۔
فتاوی شامی (4/ 356) میں ہے :
(ويزول ملكه عن المسجدوالمصلى) بالفعل و (بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني (وشرط محمد) والإمام (الصلاة فيه)»
و في الشامية (قوله: بجماعة) لأنه لا بد من التسليم عندهما ………….. واشتراط الجماعة لأنها المقصودة من المسجد، ولذا شرط أن تكون جهرا بأذان وإقامة وإلا لم يصر مسجدا قال الزيلعي: وهذه الرواية الصحيحة وقال في الفتح: ولو اتحد الإمام والمؤذن وصلى فيه وحده صار مسجدا بالاتفاق لأن الأداء على هذا الوجه كالجماعة، قال في النهر: وإذ قد عرفت أن الصلاة فيه أقيمت مقام التسليم، علمت أنه بالتسليم إلى المتولي يكون مسجدا دونها: أي دون الصلاة، وهذا هو الأصح كما في الزيلعي وغيره وفي الفتح وهو الأوجه لأن بالتسليم إليه يحصل تمام التسليم إليه تعالى.
فتاوی عالمگیری (2/ 455) میں ہے :
«التسليم في المسجد أن تصلي فيه جماعة بإذنه …………. ويشترط مع ذلك أن تكون الصلاة بأذان وإقامة جهرا لا سرا، حتى لو صلى جماعة بغير أذان وإقامة سرا لا جهرا لا يصير مسجدا عندهما، كذا في المحيط والكفاية ………… وإذا سلم المسجد إلى متول يقوم بمصالحه يجوز وإن لم يصل فيه …..
بدائع الصنائع (6/ 219) میں ہے :
(ومنها) أن يخرجه الواقف من يده ويجعل له قيما ويسلمه إليه عند أبي حنيفة ومحمد»…………….ثم التسليم في الوقف عندهما أن يجعل له قيما ويسلمه إليه، وفي المسجد أن يصلى فيه جماعة بأذان وإقامة بإذنه
فتاوی عالمگیری (2/ 408) میں ہے :
رجل وقف وقفا ولم يذكر الولاية لأحد قيل: الولاية للواقف، وهذا على قول أبي يوسف رحمه الله تعالى لأن عنده التسليم ليس بشرط، أما عند محمد رحمه الله تعالى فلا يصح هذا الوقف ويفتى به كذا في السراجية»
تبیین الحقائق شرح كنز الدقائق (3/ 329) میں ہے :
ومن بنى مسجدا لم يزل ملكه عنه حتى يفرزه عن ملكه بطريقه ويأذن بالصلاة فيه وإذا صلى فيه واحد زال ملكه)……………وأما الصلاة فيه فلأنه يشترط التسليم عند أبي حنيفة ومحمد فإذا تعذر يقام تحقق المقصود مقامه أو يشترط فيه تسليم نوعه وذلك في المسجد بالصلاة فيه»
مسائل بہشتی زیور (2/183) میں ہے :
مسجد میں وقف اس سے لازم ہوتا ہے کہ مسجد ہر اعتبار سے مالک کی ملکیت سے نکل جائے اور واقف کی اجازت کے بعد اس میں اذان و اقامت کے ساتھ باجماعت نماز پڑھی جائے اگرچہ ایک آدمی ہو جس نے اذان کہی اور امامت بھی اس نے کرائی کوئی اور نہ آیا تو اس کی تنہا ادائیگی جماعت کی مثل ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved