• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مسجد کے لیے وقف زمین میں کوئی رفاہی کام کرنا

استفتاء

میرے والد اور پھوپھو ایک زمین کے مشترکہ مالک تھے، انہوں نے اس کو مسجد و مدرسہ کے لیے وقف کر دیا اب ان کا انتقال ہو چکا ہے ہم اس جگہ پر ایک ایسی عمارت بنانا چاہتے ہیں کہ گراؤنڈ فلور پر مسجد اور  اوپر ڈسپنسری،   اورنیچے بیسمنٹ میں کار پارکنگ کے لیے جگہ ہو۔ کیاایسا کرنا جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  مسجد کے  اوپر ڈسپنسری اور نیچے کار پارکنگ بنانا اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ اس سے حاصل ہونے والا نفع خاص اسی مسجد و مدرسہ کے لیے مختص ہو۔اور  اوپر جو ڈسپنسری بنائی جائے اس کا کرایہ مارکیٹ ریٹ کے حساب سے مقرر کیا جائے اور اگر بیسمنٹ میں گاڑیاں صرف نمازیوں کی کھڑی ہوتی ہوں پھر تو کرایہ مقرر کرنے کی ضرورت نہیں لیکن اگر اس میں ڈسپنسری میں آنے والے لوگوں کی گاڑیاں بھی کھڑی کرنا مقصود ہو تو اس کا کرایہ بھی مارکیٹ کے اعتبار سے مقرر کیا جائے  اور  مسجد و مدرسہ پر لگایا جائے۔ مزید یہ کہ درج ذیل شرائط کو پورا کرنا لازم ہے۔

1-قانونی کاغذات میں اس کی وضاحت ہونے چاہیے کہ یہ پوری پراپرٹی صرف مسجد مدرسہ کے لیے وقف ہے۔

2-مسجد کا راستہ اور ڈسپنسری کا راستہ الگ ہو تاکہ مسجد کی بے ادبی سے بچاجاسکے کیونکہ ڈسپنسری میں خواتین اور بچوں کا آنا جانا بھی ہوگا۔

3- اگر اوپر والے پورشن کی آواز  نیچے مسجد تک آتی ہو تو ڈسپنسری کے اوقات نمازوں کے اوقات سے الگ رکھے جائیں تاکہ نمازیوں کی عبادت میں خلل واقع نہ ہو۔

شامی (6/539) میں ہے:

يؤخذ من التعليل ‌أن ‌محل ‌عدم ‌كونه مسجدا فيما إذا لم يكن وقفا على مصالح المسجد وبه صرح في الإسعاف فقال: وإذا كان السرداب أو العلو لمصالح المسجد أو كانا وقفا عليه صار مسجدا.

البحر الرائق (5/451) میں ہے:

وحاصله ‌أن ‌شرط ‌كونه ‌مسجدا أن يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه لقوله تعالى {وأن المساجد لله} بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفا لمصالح المسجد فإنه يجوز إذ لا ملك فيه لأحد بل هو من تتميم مصالح المسجد فهو كسرداب مسجد بيت المقدس.

العنایہ شرح الہدایہ (6/928) میں ہے:

(قوله وعن أبي يوسف أنه جوز في الوجهين) يعني فيما ‌إذا ‌كان ‌تحته ‌سرداب أو فوقه بيت. وعن محمد أنه أجاز ذلك كله: أي ما تحته سرداب وفوقه بيت مستغل أو دكاكين، وإنما ذكر قول محمد بهذا الطريق ولم يقل وعن أبي يوسف ومحمد مع أن هذين القولين منهما في الحكم سواء ليتهيأ له ما ذكر لكل واحد منهما من دخول مخصوص في مصر مخصوص، ولأنه ذكر زيادة التعميم بلفظ الكل في قول محمد، وقوله لما قلنا يعني من الضرورة

احسن الفتاویٰ(6/444) میں ہے:

سوال: امام  کی سکونت کے لیے  مسجد کے اوپر مکان تعمیر کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: زمین کے جتنے قطعہ کو ایک بار مسجد  شرعی قرار دے دیا گیا اس کے اندر اور نیچے اوپر کوئی دوسری چیز بنانا جائز نہیں، مسجد شرعی قرار دینے سے قبل امام کے لیے یا مصالح مسجد کے لیے اور کچھ بنانا طے کرلیا اور اس کی عام اطلاع بھی کردی ہو تو جائز ہے، مسجد شرعی ہوجانے کے بعد اگر متولی نے شروع ہی سے نیت کا  دعویٰ کیا تو یہ قبول نہ ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved