- فتوی نمبر: 32-36
- تاریخ: 26 مارچ 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وقف کا بیان > مساجد کے احکام
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے دس مرلے کا پلاٹ وقف کیا، پلاٹ وقف کرتے وقت سب بھائیوں نے مل کر کہا کہ ہم اس جگہ کو مسجد کے لیے وقف کرتے ہیں اور جتنی مٹی اس جگہ ڈلے گی وہ بھی ہم اپنی طرف سے ڈالیں گے اب مسئلہ یہ ہے کہ اس جگہ کے علاوہ اس شخص کا دس مرلے کا ایک اور پلاٹ ہے جس میں مٹی ڈلی ہوئی ہے اگر اس کو اس وقف شدہ پلاٹ کے بدلے میں دیا جائے تو کیا وہ ایسا کرسکتا ہے؟
یاد رہے کہ وقف شدہ جگہ صرف پلاٹ کی صورت میں ہے اس پر کوئی تعمیری کام نہیں ہوا ، اورنہ ہی اس میں کوئی نماز وغیرہ ادا کی گئی ہے اور نہ یہ جگہ کسی متولی کے حوالے کی گئی ہے۔
وضاحت مطلوب ہے:کیا اس زمین کا متولی متعین ہوچکا تھا؟ اگر ہوچکا تھا تو وہ کون تھا اور کیا زمین اس کے حوالے کردی گئی تھی؟
جواب وضاحت: زمین کا کوئی متولی متعین نہیں ہوا تھا بلکہ فی الحال انہی کے استعمال میں ہے اور انہوں نے اس جگہ پر چارہ لگایا ہوا ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں وقف شدہ پلاٹ دوسرے پلاٹ سے تبدیل کرسکتے ہیں۔
توجیہ: مذکورہ صورت میں اس زمین میں اذان دیکر باجماعت نماز ادا نہیں کی گئی اور نہ ہی اس زمین کو کسی متولی کے سپرد کیا گیا ہے لہٰذا یہ وقف مکمل نہیں ہوا اس لیے مذکورہ زمین کو دوسری زمین سے بدل سکتے ہیں۔
ردالمحتار (6/546) میں ہے:
و (بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني (وشرط محمد) والإمام (الصلاة فيه) بجماعة
(قوله: وشرط محمد والإمام الصلاة فيه) أي مع الإفراز كما علمته ……………… وأنه لو قال وقفته مسجدا، ولم يأذن بالصلاة فيه ولم يصل فيه أحد أنه لا يصير مسجدا بلا حكم وهو بعيد كذا في الفتح ملخصا
قال الرافعى وهو بعيد الخ لا بعد فيه مع معرفة وجهه وذلك ان بالقول مالم يحصل التسليم الذى هو شرط بخالف الصلاة فيه مع الاذان فانه يحصل التسليم مع ما يدل على الخروج تامل.
احسن الفتاویٰ (6/423) میں ہے:
سوال: زید نے اپنا مکان مسجد کو دے دیا، اور اسٹامپ پر دو گواہوں کے سامنے لکھوا دیا، اب زید کا انتقال ہو گیا تو کیا اب اس کی زوجہ انکار کر سکتی ہے کہ میں مکان مسجد کو نہیں دیتی؟ جبکہ ابھی قبضہ مکان پر زید کی بیوی کا ہے اور زید کی بیوی نے اس مکان میں سے اپنا حصہ بھی مسجد دیدیا تھا اور کاغذ لکھوا کر اپنا انگوٹھا ثبت کر دیا تھا، تو کیا مسجد کو قبضہ دینے سے پہلے زید کی بیوی کا انکار کرنا اور مکان مسجد کو نہ دینا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: صحت وقوف کے لیے اشتراط قبض متولی میں اختلاف ہے، دونوں قول مرجح و مفتی بہ ہیں، عدم اشتراط احوط و اسہل و انفع و ارجح ہے، مع ہذا جانبین کی حاجت و حالت پر غور کر کے کسی جانب فتویٰ دینا چاہیے۔
قال التمرتاشي: و لا يتم حتى يقبض و يفرز و يجعل آخره لجهة لا تنقطع.
و قال الحصكفي: هذا بيان شرائط الخاصة على قول محمد لأنه كالصدقة و جعله أبو يوسف كا الإعتاق و اختلف الترجيح و الأخذ بقول الثاني أحوط و أسهل بحر، و في الدرر و صدر الشريعة و به يفتى و أقره المصنف.
و قال الشامي تحت قوله: (هذا بيان) و اختاره المصنف تبعاً لعامة المشائخ و عليه الفتوى و كثير من المشائخ أخذوا بقول أبي يوسف و قالوا إن عليه الفتوى و لم يرجح أحد قول الإمام قوله: (و اختلف الترجيح) مع التصريح في كل منهما بأن الفتوى عليه لكن في الفتح أن قول أبي يوسف أوجه عند المحققين. (رد المحتار:4/351)
و قال الطحطاوي: قوله: (واختلف الترجيح) أي و الإفتاء أيضاً كما في البحر و مقتضاه أن القاضي و المفتي يخيران في العمل بأيهما كان و مقتضى قولهم يعمل بأنفع للوقف أن لا يعدل عن قول الثاني لأن فيه إبقاءه بمجرد القول فلا يجوز نقضه. (حاشية الطحطاوي: 2/532)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved