- فتوی نمبر: 31-217
- تاریخ: 18 دسمبر 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وقف کا بیان > مساجد کے احکام
استفتاء
مسجد کے پیسوں سے بچوں کے لیے قاعدے و سپارے لینا جائز ہے ؟
وضاحت مطلوب ہے: مسجد کے پیسوں سے کیا مراد ہے؟
جواب وضاحت: مسجد کے چندے کے لیے گلہ رکھا ہوا ہے اس میں جو رقم جمع ہوتی ہے وہ رقم مراد ہے۔ پہلے بچے مسجد میں ہی پڑھتے تھے لیکن جگہ کی قلت کی وجہ سے اہل محلہ نے مدرسہ کے لیے الگ جگہ لے لی لیکن اشیاء کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے ۔ پہلے بھی سپارے متولی لے کر دیتے تھے۔انتظامیہ دونوں کی ایک ہی ہے البتہ مسجد کے قاری صاحب الگ ہیں اور مدرسہ کے الگ ہیں۔ مسجد اور مدرسے کی آمدنی اور خرچ الگ الگ ہیں مدرسے کےخرچ میں قاری صاحب کی تنخواہ ایک صاحب دیدیتے ہیں اور بل بھی ایک صاحب ادا کردیتے ہیں اس کے علاوہ مدرسہ کا کوئی اضافہ خرچہ نہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں مسجد کے پیسوں سے بچوں کے قاعدے وغیرہ لینا جائز نہیں۔
توجیہ: مسجد کے گلے میں جو رقم جمع ہوتی ہے وہ مسجد یا مصالح مسجد میں خرچ کرنا ضروری ہے۔ اور مدرسہ مسجد کا غیر ہے اس لیے مسجد کے چندے کی رقم مدرسے میں خرچ کرنا جائز نہیں۔
شامی (6/ 682)میں ہے:
أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة
البحر الرائق شرح كنز الدقائق (5/ 234)میں ہے:
إذا اختلف الواقف أو اتحد الواقف واختلفت الجهة بأن بنى مدرسة ومسجدا وعين لكل وقفا وفضل من غلة أحدهما لا يبدل شرط الواقف
امداد الفتاویٰ(6/36) میں ہے:
یہ اوقاف مسجد کے لیے ہیں نہ کہ مدرسہ کے لیے بعد وقف کے مصرف بدلنا خود واقف کو بھی جائز نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved