- فتوی نمبر: 33-365
- تاریخ: 03 اگست 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وقف کا بیان > مساجد کے احکام
استفتاء
ہماری مسجد میں بڑا سولر سسٹم لگا ہوا ہے اور اس کے ساتھ نیٹ میٹرنگ بھی ہوئی ہے (گرین میٹر لگا ہوا ہے) مطلب جو استعمال سے زائد یونٹس سولر بناتا ہے وہ واپڈا کی طرف جاتے ہیں لیکن سننے کے مطابق ان کا کوئی فائدہ نہیں ۔ واپڈا ان اضافی یونٹس کے پیسے نہیں دیتا ۔جنہوں نے یہ مسجد بنوائی ہے اور سارا سولر سسٹم لگوایا ہے وہ کینیڈا میں ہوتے ہیں ۔ ان کے بھائی بھی وہیں ہوتے ہیں ایک دو ماہ کے لیے یہاں آتے ہیں ۔ ان دوسرے بھائی نے مسجد کے قریب اپنا نیا گھر بنایا ہے ۔ گھر بنانے کے دوران جتنی بھی بجلی استعمال ہوئی ہے وہ مسجد سے ہی ہوئی ہے اور اس کا بل نہیں آیا بلکہ وہ زائد یونٹس بنے ہوئے تھے وہی کام آئے ۔
اب وہ پوچھ رہے ہیں کہ واپڈا نے اضافی یونٹس کے پیسے تو دینے نہیں ہیں تو کیا یہ اپنی بجلی کا کنکشن یہاں مسجد سے کر سکتے ہیں؟ یہ جو بھی بجلی استعمال کریں گے اس کے پیسے مسجد میں دے دیا کریں گے جو مسجد کی ضروریات میں استعمال ہو جائیں گے ۔ (ایک طرح سے یہ اضافی یونٹس ضائع ہو رہے ہیں، اگر یہ مسجد سے بجلی لے کر بجلی کے پیسے مسجد میں دے دیں تو اضافی بجلی ضائع ہونے سے بچ جائے گی اور حاصل ہونے والے پیسے مسجد کے کام آ جائیں گے)
دوسرا یہ کہ اب انہوں نے یو پی ایس لگوانا ہے جس کا خرچہ کم از کم بھی 80، 90 ہزار روپے آنا ہے ۔ اگر وہ یو پی ایس لگاتے ہیں تو وہ سال میں ایک دو ماہ استعمال ہونا ہے جس کے بعد شاید استعمال نہ ہونے کی وجہ سے بیٹری وغیرہ میں خرابی ہو سکتی ہے ۔اگر وہ انہی پیسوں کی بیٹریاں لے کر مسجد میں لگا دیں اور بجلی اور سولر کی سہولت لینا چاہیں تو لے سکتے ہیں؟
ایک چیز اور بھی ہے ۔ وہ یہ کہ جس بور سے مسجد کا پانی آتا ہے اس کی موٹر بھی مسجد سے چلتی ہے ۔ لیکن اسی بور کا پانی کھیتوں میں بھی لگاتے ہیں اور اس کے لیے بھی موٹر مسجد سے چلتی ہے ۔ بعض اوقات کئی کئی گھنٹے موٹر چلتی رہتی ہے۔ جو استعمال ہو چکی اس کا کیا حل ہو سکتا ہے ؟ اس کا مسجد کی تعمیر کروانے والے، یہاں معاملات دیکھنے والے اور نمازیوں کو بھی پتا ہے ۔سوال یہ ہے کہ:
1۔ گھر کی تعمیر کے دوران جو بجلی استعمال ہوئی، اس کے پیسے بھی مسجد میں دینے ہیں یا نہیں؟
2۔ گھر کی بجلی کا کنکشن مسجد کے ساتھ کر سکتے ہیں، استعمال کے مطابق وہ پیسے مسجد میں دیتے رہیں گے ۔
3۔ گھر میں یو پی ایس لگوانے کے بجائے وہ اچھی بیٹری مسجد میں لگا دیں اور یہیں سے بجلی اور سولر کی سہولت لینا چاہیں تو لے سکتے ہیں یا نہیں؟
4۔ کھیتوں میں پانی لگانے کے لیے موٹر چلائی جاتی ہے اس کا بل بھی پانی لگانے والوں سے لیا جائے گا؟ جو پہلے استعمال کر چکے ہیں، استعمال کی یونٹس یا چلانے کے وقت کا حساب نہیں، اس کی ادائیگی بھی کرنا ضروری ہے یا نہیں؟ اگر ضروری ہے تو کس حساب سے ادائیگی کی جائے؟
واضح رہے کہ مسجد کی انتظامیہ یا کمیٹی وغیرہ نہیں ہے ۔ جنہوں نے مسجد بنوائی ہے وہ کینیڈا میں ہوتے ہیں، سال میں ایک ماہ کے لیے آتے ہیں اور مسجد کے سارے اخراجات بشمول امام صاحب کا وظیفہ بھی وہی ادا کرتے ہیں ۔ ان کے بہنوئی یہاں ہوتے ہیں وہ سب معاملات دیکھتے ہیں ۔ باقی نمازیوں کا کوئی لین دین نہیں ہے نہ وہ مسجد کے ساتھ تعاون کرتے ہیں نہ کسی خرابی کی صورت میں درستگی وغیرہ کرواتے ہیں ۔ جنہیں بجلی چاہیے وہ کینیڈا والے صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں اور یہاں جو مسجد کے معاملات دیکھتے ہیں ان کے سالے ہیں ۔
وضاحت مطلوب ہے: تیسری صورت میں وہ بجلی کے یونٹس استعمال کرنے کا بل الگ سے دے گا یا نہیں؟
جواب وضاحت: بیٹری لگوانے کے بعد بھی بل دیں گے ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔گھر کی تعمیر کے دوران جو بجلی خرچ ہوئی اس کے پیسے مسجد میں دینا ضروری ہے۔
توجیہ: مسجد کی چیزوں کو ذاتی استعمال کے لیے لینا جائز نہیں کیونکہ مسجد اور اس کی چیزیں وقف ہیں وقف شدہ چیزوں کو ذاتی استعمال میں لانا جائز نہیں لہذا استعمال کی صورت میں اس کا تاوان عام دستور کے مطابق متعین کر کے مسجد میں دینا ہوگا۔
شامی (4/408) میں ہے:
(يفتى بالضمان في غصب عقار الوقف وغصب منافعه) أو إتلافها كما لو سكن بلا إذن أو أسكنه المتولي بلا أجر كان على الساكن أجر المثل، ولو غير معد للاستغلال به يفتى صيانة للوقف.
فتاوی دارالعلوم دیوبند (13/493) میں ہے:
سوال:ایک مسجد کے محلہ داران نے اینٹیں شاملانہ بنگلہ میں لگائی ہیں اور اراضی مسجد کو بھی اپنے قبضے میں لانا چاہتے ہیں شرعا کیا حکم ہے؟
جواب : مسجد کی اینٹیں وغیرہ سامان وقف ہے اور وقف کا کوئی مالک نہیں ہو سکتا جن لوگوں نے مسجد کی اینٹیں اپنے شاملانہ کے مکان میں لگائی ہیں وہ گنہگار ہوئے ہیں ان کو چاہیے کہ اس قدر اینٹیں یا ان کی قیمت مسجد میں دیویں اور زمین مسجد پر کسی کا قبضہ کرنا صحیح نہیں وہ بھی وقف ہے۔ الوقف لا يملك ولا يملك،شامی(6/431)
2۔مسجد کی مملوکہ چیزیں بجلی وغیرہ اگر مسجد کی ضرورت سے زائد ہوں اور فی الحال ان کی مسجد کو کوئی ضرورت نہ ہو تو ان کو فروخت کر کے مسجد کے مصارف میں استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ مذکورہ صورت میں اگر واقعی مسجد کا سولر سسٹم اضافی بجلی پیدا کر رہا ہے اور اس اضافی بجلی کی مسجد کو ضرورت نہیں تو اسے معقول عوض کے بدلے فروخت کرنا جائز ہےاور اس رقم کو مسجد میں استعمال کیا جائے گا۔
ہندیہ (2/463) میں ہے:
الفاضل من وقف المسجد هل يصرف إلى الفقراء؟ قيل: لا يصرف وأنه صحيح ولكن يشتري به مستغلا للمسجد.
تنقیح الفتاویٰ الحامدیہ (1/212) میں ہے:
نعم؛ لأن للناظر التصرف في الوقف بما فيه الحظ والمصلحة وحيث عرض المتولي المشروط له النظر
فتاوی مفتی محمود(1/791) میں ہے:
کیا فرماتے ہیں دریں مسئلہ کہ کوئی شخص مسجد کی بجلی یا میٹر سے تار چسپاں کر اپنے مکان میں روشنی حاصل کرتا ہے اور کہتا ہے جتنا خرچ ہو سب بل میں ادا کروں گا، کیا یہ فائدہ اٹھانا جائز ہے؟
جواب چونکہ اس صورت میں مسجد کو فائدہ ہی فائدہ ہے اور اس صورت میں مسجد کے وقف مال کا استعمال بھی لازم نہیں آ رہا اس لیے متولی کی اجازت سے مسجد کے میٹر وغیرہ سے کنکشن لے سکتا ہے اور اگر متولی اس کی اجازت نہ دے تو کنکشن نہیں لے سکتا۔
3۔مذکورہ صورت میں یوپی ایس اور بیٹری مسجد میں لگا سکتے ہیں۔
4۔واضح رہے کہ مسجد کی سہولیات پانی اور اسی طرح مسجد کی دیگر اشیاء کو اپنی ذاتی ضروریات کے لیے استعمال کرنا شرعاً ناجائز ہے۔ مسجد اور مسجد کی دیگر اشیاء کسی ایک شخص کی ذاتی ملکیت نہیں کہ ہر شخص اپنی ذاتی ضرورت کے لیے استعمال کرتا رہے لہذا جو پانی استعمال کیا ہے اس کی قیمت لگائی جائے گی کہ عرف میں اس کی قیمت کتنی بنتی ہے، جو قیمت بنے اسی حساب سے قیمت مسجد میں دے دی جائے۔
ہندیہ (2/462) میں ہے:
متولي المسجد ليس له أن يحمل سراج المسجد إلى بيته وله أن يحمله من البيت إلى المسجد، كذا في فتاوى قاضي خان.
شامی (4/408) میں ہے:
(يفتى بالضمان في غصب عقار الوقف وغصب منافعه) أو إتلافها كما لو سكن بلا إذن أو أسكنه المتولي بلا أجر كان على الساكن أجر المثل، ولو غير معد للاستغلال به يفتى صيانة للوقف.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved