- فتوی نمبر: 32-58
- تاریخ: 04 اپریل 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وقف کا بیان > مساجد کے احکام
استفتاء
مسجد کے وضو خانہ کو اگر مدرسے کے لیے راستے سے تبدیل کریں تو شرعی طور پر جائز ہے یا نہیں؟ جبکہ مسجد کو وضو کےلیے متبادل بھی دیں ۔
وضاحت مطلوب ہے کہ: 1۔کیا یہ مسجد اور مدرسہ دونوں وقف کی جگہ پر ہیں؟ 2۔مدرسے کے لیے یہاں سے راستہ کیوں دے رہے ہیں؟کیا کوئی متبادل راستہ ممکن نہیں ہے؟ 3۔ابھی تک مدرسے کے لیے کون سا راستہ استعمال کیا جا رہا تھا؟
جواب وضاحت:1۔ مسجد وقف کی زمین پر ہے اور مدرسہ غیر وقف۔2۔ممکن نہیں ہے 3۔نیا تعمیر ہوا ہے۔
مزید وضاحت مطلوب ہے: 1۔مدرسہ غیر وقف ہونے کا کیا مطلب ہے؟ مسجد کس نے وقف کی؟ اور مدرسہ کس نے بنایا؟2۔ کیا واقف ِ مسجد نے وقف کرتے وقت تبدیلی وقف کی شرط لگائی تھی یا نہیں؟
جواب وضاحت:1۔ مسجد کی زمین کسی اور نے وقف کی ہے جبکہ مدرسہ کی جگہ مہتمم صاحب نے اپنے پیسوں سے خریدی ہے۔2۔مطلق وقف کیا تھا تبدیلی کی شرط نہیں لگائی تھی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جو جگہ ایک دفعہ وقف ہوجائے اور وقف کرتے وقت تبدیلی کی شرط بھی نہ لگائی گئی ہو اور تبدیلی میں وقف کی مجبوری بھی نہ ہو تو وقف شدہ جگہ کو کسی دوسری جگہ سے تبدیل کرنا جائز نہیں۔ مذکورہ صورت میں مسجد کے وضو خانے کی جگہ چونکہ وقف ہے اور وقف کے وقت تبدیلی کی شرط بھی نہیں لگائی اور اس تبادلے میں وقف یعنی مسجد کی کوئی مجبوری بھی نہیں بلکہ مدرسے کی مجبوری ہے جوکہ خود وقف بھی نہیں لہذا یہ تبادلہ شرعاً جائز نہیں۔
شامی(4/384) میں ہے:
مطلب في استبدال الوقف وشروطه (قوله: وجاز شرط الاستبدال به إلخ) اعلم أن الاستبدال على ثلاثة وجوه: الأول: أن يشرطه الواقف لنفسه أو لغيره أو لنفسه وغيره، فالاستبدال فيه جائز على الصحيح وقيل اتفاقا. والثاني: أن لا يشرطه سواء شرط عدمه أو سكت لكن صار بحيث لا ينتفع به بالكلية بأن لا يحصل منه شيء أصلا، أو لا يفي بمؤنته فهو أيضا جائز على الأصح إذا كان بإذن القاضي ورأيه المصلحة فيه. والثالث: أن لا يشرطه أيضا ولكن فيه نفع في الجملة وبدله خير منه ريعا ونفعا، وهذا لا يجوز استبداله على الأصح المختار كذا حرره العلامة قنالي زاده في رسالته الموضوعة في الاستبدال، وأطنب فيها عليه الاستدلال وهو مأخوذ من الفتح أيضا كما سنذكره عند قول الشارح لا يجوز استبدال العامر إلا في أربع ويأتي بقية شروط الجواز.وأفاد صاحب البحر في رسالته في الاستبدال أن الخلاف
شامی (4/386) میں ہے:
وليس للقيم ولاية الاستبدال إلا أن ينص له …….. وقد اختلف كلام قاضي خان ففي موضع جوزه للقاضي بلا شرط الواقف حيث رأى المصلحة فيه، وفي موضع منعه منه ولو صارت الأرض بحال لا ينتفع بها والمعتمد أنه يجوز للقاضي بشرط أن يخرج عن الانتفاع بالكلية وأن لا يكون هناك ريع للوقف يعمر به وأن لا يكون البيع بغبن فاحش كذا في البحر الرائق وشرط في الإسعاف أن يكون المستبدل قاضي الجنة المفسر بذي العلم والعمل لئلا يحصل التطرق الى ابطال اوقاف المسلمين كما هو الغالب فى زماننا.
الإسعاف فى أحكام الأوقاف (ص32) میں ہے:
«ولو كان الوقف مرسلا لم يذكر فيه شرط الاستبدال لا يجوز له بيعه واستبداله وإن كانت الأرض سبخة لا ينتفع بها ولكن يرفع الأمر إلى القاضي الذي مر ذكره آنفا لأن سبيله أن يكون مؤبدا لا يباع وإنما يثبت له ولاية الاستبدال بالشرط وبدونه لا .
الفقہ الاسلامی وادلتہ (10/7612) میں ہے:
إذا صح الوقف خرج عن ملك الواقف، وصار حبيساً على حكم ملك الله تعالى، ولم يدخل في ملك الموقوف عليه، بدليل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالك الأول) كسائر أملاكه.وإذا صح الوقف لم يجز بيعه ولا تمليكه ولا قسمته
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved