• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مسجد کی چیز کو کس قیمت پر بیچا جائے گا؟

استفتاء

مسجد کے معاملات کے حوالے سے مسئلہ دریافت کرنا ہے کہ مسجد کی جو چیزیں  استعمال کے قابل  نہیں ہیں  ان کی  بیچنے کے اعتبار سے کس حد تک قیمت  خریدار سے لی جا سکتی ہے۔ کم سے کم قیمت کیا ہو ؟ اور بھی اس سے متعلق جو احکامات ہوں ان کی  بھی برائے مہربانی رہنمائی فرما دیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جن چیزوں کی آئندہ بھی مسجد کے کام آنے کی امید نہ ہو ان کو فروخت کیا جا سکتا ہے۔انہیں  فروخت کرنے کے لیے کوئی قیمت  شرعی طور پر مقرر  نہیں ہے۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے  کہ ان چیزوں  کو ان کے مارکیٹ ریٹ سے کم میں فروخت  نہ کیا جائے اور جو قیمت حاصل ہو  اس سے اسی کی مثل کوئی اور چیز خرید لی جائے، یا اس کے قریب قریب کوئی دوسری چیز خرید لی جائے۔

شامی (4/408) میں ہے:

(قوله: كان على الساكن أجر المثل) حتى ‌لو ‌باع ‌المتولي ‌دار ‌الوقف فسكنها المشتري ثم أبطل القاضي البيع كان على المشتري أجرة المثل فتح وبه أفتى الرملي وغيره كما قدمناه، وما في الإسماعيلية من الإفتاء بخلافه تبعا للقنية فهو ضعيف كما صرح به في البحر، ودخل ما لو كان الوقف مسجدا أو مدرسة سكن فيه فتجب فيه أجرة المثل كما أفتى به في الحامدية

شامی (4/454) میں ہے:

(قوله: ‌وخصاه ‌بالنقود) بناء على أن الناظر وكيل يتصرف بالعرض وبالنقد وبالنسيئة عنده وعندهما بالنقود كما سيأتي في كتاب الوكالة

دررالحکام شرح مجلۃ الاحکام (3/613) میں ہے:

‌إذا ‌وكل ‌الموكل الوكيل وكالة عامة بقوله: بعه لمن شئت فللوكيل في تلك الحالة أن يبيعه بثمن المثل لهؤلاء أو بغبن يسير. وليس له أن يبيعه بالإجماع بغبن فاحش (البحر)

کفایت المفتی (7/67) میں ہے:

مسجد کا پرانا سامان اور ملبہ جو اسی مسجد کی تعمیر جدید میں کام نہ آسکتا ہو فروخت کر دینا جائز ہے۔بہتر یہ ہے کہ مسلمان کے ہاتھ فروخت کیا جائے اور اس کی قیمت کو اس مسجد کی ضروری تعمیر میں یا جس قسم کا سامان تھا اس کے مثل میں صرف کر دیا جائے۔

فتاویٰ محمودیہ(14/301) میں ہے:

جو چیزیں شرعی طور پر وقف ہو جائیں  اس کو فروخت کرنا درست نہیں ہاں اگر وہ بالکل ہی قابل انتقاع نہ رہے تو ایسی حالت میں اس کو فروخت کر کے اس کی قیمت سے ایسی ہی کارآمد شئ  مسجد کے لیے خرید کر وقف کر دی جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved