• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مسجد کی جگہ مدرسہ بنانا

استفتاء

ہمارے گاؤں میں وقف کی جگہ ہے جو قبرستان اور مسجد کے نام الاٹ ہے اس میں سے 3 کنال جگہ مسجد کے نام کی الاٹ ہے ہماری مسجد تقریباً ڈیڑھ کنال پر مشتمل ہے باقی جگہ مسجد کے آگے اور پیچھے بلکل خالی  ہے جسے گاؤں والے استعمال کر لیتے ہیں گاڑی، ریت، اینٹ وغیرہ کے لیے۔ تو عرض یہ ہے کہ ہم گاؤں والے مسجد کے پیچھے والے حصہ میں مدرسہ بنانا چاہتے ہیں گاؤں کے بچے اور بچیوں کے پڑھنے کے لیے تو کیا اس جگہ پر صدقہ یا زکوۃ یا جو پیسے اللہ نام کے جمع ہوں ان پیسوں سے تعمیر کر سکتے ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ خالی جگہ پر گاؤں کے بچے اور بچیوں کے پڑھنے کے لیے عارضی طور پر مدرسہ بنا سکتے ہیں  تاہم یہ جگہ  مسجد کی ہی رہے گی اور جب بھی مسجد کوا س جگہ کی ضرورت پڑی تو یہ جگہ خالی کرکے مسجد کو دینا لازمی ہوگا تاہم اس جگہ مدرسہ  تعمیر کرنے کے لیے زکوٰۃ یا صدقات واجبہ کی رقم براہ راست استعمال نہیں کی جاسکتی اس کے علاوہ نفلی صدقات کی رقم استعمال کی جاسکتی ہے اور اگر بامر مجبوری زکوٰۃ وصدقات واجبہ کی رقم استعمال کرنی پڑے تو اس کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ  وہ رقم کسی مستحق زکوٰۃ کو مالکانہ طور پر دیدی جائے اور وہ مستحق زکوٰۃ شخص اپنی خوشی  سے یہ رقم اس تعمیر  کے لیے عطیہ کردے۔

تبیین الحقائق: (330/3)میں ہے:

وقد بيناه من قبل وإذا صار مسجدا على اختلافهم زال ملكه عنه وحرم بيعه فلا يورث وليس له الرجوع فيه لأنه صار لله بقوله تعالى {وأن المساجد لله} [الجن: 18] ولا رجوع فيما صار لله تعالى كالصدقة.

ہندیہ(362/2)میں ہے:

البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعا لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه والأصح أنه لا يجوز كذا في الغياثية.

ہندیہ (1/188) میں ہے:

ولا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، ‌وكري ‌الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه

حلبی کبیر (ص:611) میں ہے:

أما الكاتب ومعلم الصبيان فإن كان بأجر يكره وإن كان حسبة فقيل لا يكره والوجه ما قاله إبن الحمام أنه يكره التعليم إن لم يكن ضرورة لان نفس التعليم ومراجعة الاطفال لايخلو عما يكره فى المسجد.

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (2/ 36) میں ہے:

«فلا يجوز لأحد مطلقا ‌أن ‌يمنع ‌مؤمنا من عبادة يأتي بها في المسجد لأن المسجد ما بني إلا لها من صلاة واعتكاف وذكر شرعي وتعليم علم وتعلمه وقراءة »

شامی (2/ 345) میں ہے:

«وقدمنا لأن الحيلة أن يتصدق ‌على ‌الفقير ‌ثم ‌يأمره بفعل هذه الأشياء»

 (قوله ثم يأمره إلخ) ويكون له ثواب الزكاة وللفقير ثواب هذه القرب بحر

فتاویٰ محمودیہ (14/607) میں ہے:

سوال (۷۱۴۲) : ایک مسجد ہے، جس کے تحتانی حصہ میں نماز ہوتی ہے اور فوقانی حصہ میں بچے پڑھتے ہیں اگرچہ  مسجد بناتے وقت اس کا کوئی خیال نہیں تھا کہ اس میں بچے پڑھیں گے ، بلکہ اس کا شمار مسجد ہی میں تھا۔ اب کیا ایسی صورت میں جماعت فوقانی حصہ میں ہو سکتی ہے یا نہیں؟ اور اس حصہ میں بچوں کو تعلیم دے سکتےہیں یا نہیں؟

الجواب حامداًومصلياً:وہ مسجد جس طرح سے اس کے نیچے کا حصہ مسجد ہے اسی طرح اوپر کا حصہ بھی مسجد ہے  ، جماعت ثانیہ اوپر نہ کی جائے، بچوں کی تعلیم کے لئے کسی دوسری جگہ کا انتظام کیا جائے ۔ اگر کوئی دوسری جگہ نہ ہو تو مجبوراً بچوں کو دینی تعلیم مسجد میں دینا درست ہے  مگر اتنے چھوٹے بچے نہ ہوں جن کو پا کی ناپاکی کی تمیز نہ ہو، مثلاً گندے پیر مسجد میں رکھیں یا پیشاب کر دیں۔ اور یہ بھی ضروری ہے کہ احترام مسجد کے خلاف وہاں کوئی کام نہ کیاجائے ، مثلاً بچوں کو سخت الفاظ اور کڑک آواز سے ڈانٹنا، مارنا، سزا دینا

دار العلوم دیو بند (13/513) میں ہے:

سوال: ایک گروہ مسلمانوں کا غریب ہے ، ان کی مسجد خام ہے بارش میں بہت  ٹپکتی ہے، وہ لوگ بوجہ افلاس کے  پختہ نہیں بنوا سکتے، ایک شخص کے پاس زکوۃ کا روپیہ موجود ہے، وہ روپیہ مسجدمیں صرف ہو سکتا ہے یا نہیں ؟

الجواب : زکوۃ کے روپیہ کو مسجد کی تعمیر میں لگانا درست نہیں ہے، یعنی اس سے زکوۃ ادا نہ ہوگی اور پھر زکوۃ دینی پڑے گی مگر ایک حیلہ جواز کا فقہاء نے یہ لکھا  ہے کہ وہ روپیہ زکوٰۃ کا اول کسی ایسے شخص  کو دیا جائے جو مالک نصاب نہ ہو پھر وہ شخص اپنی طرف سے اس روپے کو تعمیر میں صرف کردیوے  یہ جائز ہے۔

کفایت المفتی(4/92) میں ہے:

جواب :مسجد کے اندر مدرسہ بنانے سے اگر مراد یہ ہے کہ مسجد کا حصہ (مہیاللصلوۃ) کو مدرسہ بنادینا تو یہ نہیں ہو سکتا۔ ہاں مسجد میں بیٹھ کر دینیات کی تعلیم دینے میں مضائقہ نہیں مگر مسجد کی حیثیت مسجد ہی کی رہے گی۔ مدرسہ کی حیثیت پیدا نہ ہو گی اور آداب مسجد کی رعایت لازم ہو گی اور اگر مراد یہ ہے کہ احاطہ مسجد کے اندر فاضل جگہ موجود ہے۔ موضع للصلاۃ اس سے علیحدہ ہے تو اس فارغ اور فاضل جگہ میں مدرسہ بنانا جائز ہے۔ لیکن مدرسہ عارضی ہوگا اور اگر کبھی مسجد کو اس جگہ کی ضرورت ہو گی تو مدرسہ اٹھانا پڑے گا اور جگہ مسجد  کے حوالے کرنی پڑے گی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved