- فتوی نمبر: 9-380
- تاریخ: 26 اپریل 2017
- عنوانات: عقائد و نظریات > حدیث و سنت
استفتاء
ہمارے مارکیٹ میں مسجد تقویٰ عرصہ 8 ۔ 10 سال سے بنی ہوئی ہے اور پانچ نمازیں پابندی سے ہوتی ہیں۔ مسجد شیر محمد بنائی ہے اور مولانا عبد الشکور حقانی صاحب کے حوالہ کر دی ہے۔ مسجد میں جگہ کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے مسجد کے ساتھ شیر محمد نے مزید پانچ مرلہ جگہ خریدی، آدھا اپنی رہائش کے لیے رکھا اور آدھا مسجد کے نام وقف کر دیا اور اس کا انتظام خود شیر محمد نے متولی کی حیثیت سے رکھا، اس کی تعمیر میں نہ کسی سے ایک روپیہ لیا اور نہ خدمت لی، خود ہی سب کرتا رہا جو جگہ مسجد کے ساتھ ملائی گراؤنڈ فلور میں حفظ کی کلاس شروع کی اور فسٹ فلور پر مسجد کی دیوار سے دو دروازے نکال کر ملایا اور عرصہ تین سال سے نمازیں اور تراویح ہوتی رہیں۔ اب عبد الشکور حقانی صاحب نے سب لوگوں یعنی نمازیوں کو کہہ دیا کہ اس جگہ میں مسجد کا ثواب نہیں ملے گا جب تک یہ مسجد والوں (یعنی خود مولانا عبد الشکور صاحب) کے حوالے نہیں کرتے، ہم نے یہ جگہ مسجد کے لیے وقف کی ہوئی ہے ان کو نہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ جماعتوں کے لیے انہوں نے مسجد کی سہولیات ختم کر دی یعنی سامان رکھنے کی جگہ، سوئی گیس وغیرہ۔ آپ بتائیں قرآن و حدیث کی روشنی میں کیا اس جگہ میں دروازے لگانے سے یہ جگہ مسجد کے حکم سے نکل جائے گی اور اس کا ثواب مسجد کا نہیں ملے گا، صبح فجر سے اشراق تک اور مغرب سے عشاء تک یہاں حفظ کی کلاس لگتی ہے۔ باقی کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
نوٹ: مذکورہ جگہ شیر محمد نے زبانی وقف کر دی ہے اور انتظام و انصرام اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ اس کے بارے میں شروع سے نیت ایسی ہی ہے۔ اب بھی اسی نیت کے مطابق کام چل رہا ہے۔
مذکورہ جگہ کا نقشہ کچھ اس طرح ہے:
نوٹ: قدیم مسجد کے بارے میں واقف کی شروع سے یہ نیت تھی کہ بیسمنٹ اور گراؤنڈ فلور میں بچیوں کی تعلیم ہو گی اور فرسٹ فلور میں نمازیں پڑھی جائیں گی۔
اور نئے ملحقہ حصے کے بارے میں بھی واقف کا شروع سے یہ ذہن اور نیت تھی کہ گراؤنڈ فلور بچوں کی تعلیم اور جماعت والوں کے سامان و کھانے پکانے اور ضروریات کے لیے ہو گا اور فرسٹ فلور پرنمازیں پڑھی جائیں گی۔
دوسرے فریق کا بیان
سائل کی فراہم کردہ تمام تفصیلات سے تو اتفاق نہیں البتہ اس سوال سے اتفاق ہے کہ مسئولہ جگہ مسجدِ شرعی ہے یا نہیں کیونکہ مالک نے اس جگہ سے اپنا عمل دخل ختم نہیں کیا بلکہ وہ خود اس جگہ بدستور متصرف ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
شیر محمد کی طرف سے مسجد کے ساتھ ملائے گئے حصے کا فرسٹ فلور مسجد شرعی ہے۔ لہذا اس میں نمازوں کا مسجد والا ثواب ملے گا۔ مسجد شرعی قرار پانے کے لیے وقف کے بعد لوگوں کا نماز پڑھ لینا کافی ہے۔ کسی دوسرے کے حوالے کرنا ضروری نہیں۔ نیز وقف کے لیے تحریر ضروری نہیں، زبانی بھی کافی ہے۔
چنانچہ در مختار (6/546) میں ہے:
(ويزول ملكه عن المسجد والمصلي) بالفعل و(بقوله جعلته مسجداً) عند الثاني (وشرط محمد)
والإمام (الصلاة فيه). وفي الشامية تحت قوله (بالفعل) أي بالصلاة فيه ففي شرح الملتقى أنه يصير مسجداً بلا خلاف ثم قال عند قول الملتقى وعند أبي يوسف يزول بمجرد القول ولم يرد أنه لا يزول بدونه لما عرفت أنه يزول بالفعل أيضاً بلا خلاف…… وفي الدر المنتقى وقدم في التنوير والدرر والوقاية وغيرها قول أبي يوسف وعلمت أرجحيته في الوقف والقضاء.
امداد الاحکام (3/193) میں ہے:
’’صحت وقف مسجد کے لیے امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے ’’‘جعلته مسجداً‘ میں نے اس کو مسجد بنا دیا اور امام ابو حنیفہ اور امام محمد رحمہما اللہ کے نزدیک تسلیم بھی شرط ہے خواہ متولی کے سپرد کرے یا کم از کم اس میں جماعت کے ساتھ ایک دفعہ نماز پڑھ لی جائے۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط و الله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved