- فتوی نمبر: 24-391
- تاریخ: 20 اپریل 2024
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس بارے میں کہ ہماری جامع مسجد یوسف پارک شاہدرہ میں واقع ہے ہمارے علاقہ میں کوئی مستقل جنازگاہ نہیں ہے فی الحال مسجد کی آخری صفوں اور مسجد سے متصل مدرسہ میں نماز جنازہ پڑھائی جاتی ہے .
سوال (1)ہماری مسجد کے محراب کے بائیں جانب ایک کمرہ ہے جو کہ صفوں سے آگے ہونے کی وجہ سے مسجد کا حصہ بھی نہیں اور سٹور کے لئے استعمال ہوتا ہے جس کی چوڑائی تقریبا 5فٹ سے 12 فٹ اور لمبائی تقریبا 35 سے 40 فٹ ہے۔ اگر اس کمرے میں جنازہ رکھا جائے امام صاحب بھی اندر ہوں ایک صف نمازی تقریبا 15,10 بھی اندر ہوں اور باقی نمازی مسجد کی صفوں پر نماز پڑھیں تو کیا یہ صورت جائز ہوگی؟
سوال (2) اس کمرے تک جانے کا راستہ صرف مسجد کے اندر سے ہے باہر سے کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ اس طرف سے مکان بن چکے ہیں کیا جنازہ مسجد میں رکھنا یا مسجد کے اندر سے گزارنا جائز ہے؟
سوال (3)اگر مسجد کی انتظامیہ اور متولی باہمی رضامندی سے مسجد کا وہ حصہ جو تقریبا 5,4 فٹ چوڑا ہو اس کمرے تک جانے کے لیے بطور راستے کے حدود مسجد سے نکال دیں تو کیا وہ راستہ مسجد کی حدود سے نکال سکتے ہیں؟
نوٹ: راستہ کو بالکل مسجد کی حدود سے نہیں نکالیں گے بلکہ وہاں پر نشان لگا دیں گے کہ یہ راستہ ہے جنازہ گزارنے کیلئے۔
وضاحت مطلوب ہے: 1)مدرسہ میں ہی نماز جنازہ پڑھتے رہیں تو کیا حرج ہے؟
2)کیا مسجد سے باہر کوئی اور قریبی کھلی جگہ پارک وغیرہ نہیں ہے کہ جہاں نماز جنازہ ادا کر سکیں۔
جواب: 1)مدرسہ میں جگہ کم ہے
2)قریب کوئی کھلی جگہ یا پارک نہیں ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1)مذکورہ صورت عام حالات میں مکروہ ہے البتہ عذر کی وجہ سے جائز ہے۔
حاشیۃ ابن عابدین (148/3) میں ہے:
فلا يكره إذا كان الميت خارج المسجد وحده أو مع بعض القوم اه ح قال في شرح المنية وإليه مال في المبسوط و المحيط وعليه العمل وهو المختار اه قلت بل ذكر في غاية البيان و العناية أنه لا كراهة فيها بالاتفاق لكن رده في البحر وأجاب في النهر بحمل الاتفاق على عدم الكراهة في حق من كان خارج المسجد وما مر في حق من كان داخله
بزازیۃ ( 53/1) میں ہے:
في الصغرى يكره صلوة الجنازة في مسجد الجماعة بكل حال وفي كراهية الجامع الصغير اختلف فيما اذا كان بعض القوم خارج المسجد وفي فتاوى النسفي صلوة الجنازة في مسجد الجمعة على ثلاثة اوجه:اذا كان الكل في المسجد يكره بالاتفاق وان كانت الجنازة وصف خارج الجامع والباقي فيه لا يكره بالاتفاق وان كانت الجنازة وحدها في الخارج فمختلف والحلواني على اختيار الكراهة اه
امداد الفتاویٰ (614/1) میں ہے:
سوال : اگر جنازہ اور امام مع چند مقتدیوں کے مسجد سے خارج ہے اور باقی لوگ مسجد میں ہیں تو ایسی صورت میں جائز ہے یا نہیں؟
الجواب : مکروہ علی الارجح کما فی الشامی مگر صرف ان ہی کی جو مسجد میں ہیں ۔
(2)مذکورہ صورت میں چونکہ عذر ہے اس لیے جائز ہے۔
فہم حدیث (259/2) میں ہے:
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا لَمَّا تُوُفِّيَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ أَرْسَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَمُرُّوا بِجَنَازَتِهِ فِي الْمَسْجِدِ، فَيُصَلِّينَ عَلَيْهِ، فَفَعَلُوا، فَوُقِفَ بِهِ عَلَى حُجَرِهِنَّ يُصَلِّينَ عَلَيْهِ، أُخْرِجَ بِهِ مِنْ بَابِ الْجَنَائِزِ الَّذِي كَانَ إِلَى الْمَقَاعِدِ، فَبَلَغَهُنَّ، أَنَّ النَّاسَ عَابُوا ذَلِكَ، وَقَالُوا : مَا كَانَتِ الْجَنَائِزُ يُدْخَلُ بِهَا الْمَسْجِدَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ عَائِشَةَ، فَقَالَتْ : مَا أَسْرَعَ النَّاسَ إِلَى أَنْ يَعِيبُوا مَا لَا عِلْمَ لَهُمْ بِهِ، عَابُوا عَلَيْنَا أَنْ يُمَرَّ بِجَنَازَةٍ فِي الْمَسْجِدِ، وَمَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى سُهَيْلِ ابْنِ بَيْضَاءَ إِلَّا فِي جَوْفِ الْمَسْجِدِ. (مسلم)
ترجمہ :حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کا (حضرت معاویہ ؓکے زمانہ خلافت میں مدینہ سے دس میل باہر) انتقال ہوا تو رسول اللہ ﷺ کی ازواج نے (ان کے گھر والوں کو) پیغام بھیجا کہ (بقیع میں دفن کے لئے لے جاتے ہوئے) ان کے جنازے کو مسجد میں سے گزاریں تاکہ وہ ان کے لئے دعا کریں ۔ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور ان کے جنازے کو ازواج (مطہرات) کے کمروں کے سامنے روکا گیا تاکہ وہ ان کے جنازے پر دعا کرلیں ان کے جنازے کو (پھر) باب الجنائز سے نکالا گیا جو کہ مقاعد (کے نام سے مسجد کے قریب ضرورت مند لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ بات پہنچی کہ لوگو ں نے (یعنی دیگر صحابہ و اہل علم نے) کہا ہے کہ جنازوں کو مسجد کے اندر نہیں لے جایا جاتا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ بات پہنچی تو فرمایا کتنی جلدی لوگوں نے ایسی بات کو برا کہنا شروع کر دیا جس کا ان کو کچھ علم نہیں ۔ لوگوں نے ہم پر اعتراض کیا ہے (اس وجہ سے) کہ مسجد سے جنازہ گزارا گیا ہے حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن بیضا کی نماز جنازہ مسجد کے اندر ہی تو پڑھی تھی (اور ظاہر ہے کہ اس کے لئے جنازہ آخر مسجد ہی کے اندر لے جایا گیا تھا۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ جنازہ کو مسجد میں لے جاسکتے ہیں ۔)
فائدہ: چونکہ دیگر صحابہ کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکے اس اجتہاد سے اتفاق کرنا منقول نہیں اور سہیل بن بیضا کا جنازہ مسجد میں محض کسی عذر کی وجہ سے پڑھائے جانے کے لئے لایا گیا تھا اس لئے دیگر صحابہ کے قول کو ہی ترجیح حاصل ہے کہ جنازہ بلا کسی عذر کے مسجد کے اندر داخل نہ کیا جائے۔
(3)جب بامر مجبوری جنازہ گزارنے کی اجازت ہے تو اس حصے میں نشان لگانے کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی اس کا کچھ فائدہ ہے کیونکہ یہ نشان لگانے کے باوجود وہ حصہ مسجد ہی کا رہے گا۔
حاشیۃ ابن عابدین (580,581/6) میں ہے:
لا یجوز ان یتخد المسجد طریقا….. لان المسجد لایخرج عن المسجد ية ابداً
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved