- فتوی نمبر: 23-33
- تاریخ: 24 اپریل 2024
استفتاء
مسجد کے احاطے میں نماز جنازہ ادا کی جا سکتی ہے؟
وضاحت مطلوب ہے:
احاطےسےکیامراد ہے؟جوجگہ نماز کےلئےمتعین ہےیااس کے علاوہ جگہ مرادہے؟اورمقتدی،امام،میت کہاں ہوں گے؟
جواب وضاحت:
یہ جگہ مسجد میں داخل ہےاس میں جماعت کےدوران نمازی بھی کھڑے ہوتے ہیں ،اور یہ مسجد کے صحن(اوپن ایریا)میں آتی ہےنیز امام ،مقتدی اورمیت سب اسی اوپن ایریا (صحن)میں ہوتےہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
کسی بارش وغیرہ کے عذر کے بغیر مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا مکروہ ہے۔
رد المحتار (6/ 337)میں ہے:إنما تكره في المسجد بلا عذر ، فإن كان فلا، ومن الأعذار المطر كما في الخانية.
فتاویٰ تاتارخانیہ (3/78) میں ہے:انما تكره الصلاة على الجنازة في المسجد الجامع و مسجد الحي عندنا.
مراقی الفلاح (ص: 231)(وتكره الصلاة عليه في مسجد الجماعة وهو)أي الميت(فيه)كراهة تنزيه في رواية ورجحها المحقق ابن الهمام وتحريمية في أخرى والعلة فيه إن كان خشية التلويث فهي تحريمية وإن كان شغل المسجد بما لم يبن له فتنزيهية.
امدادالفتاوی جدیدمطول(3/462)میں ہے:
سوال: کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین رحمہم اللہ تعالیٰ امور ذیل میں : (۱) نمازجنازہ ایسی صورت میں کہ جنازہ اور امام ومقتدی سب لوگ مسجد میں ہوں تو کیسی ہے؟
جواب: مکروہ ہے۔
فتاوی دارالعلوم دیوبند(5/206)میں ہے:
(سوال ۲۸۳۱) حنفیوں کے نزدیک ان مساجد میں کہ جن میں فرائض باجماعت ہوتے ہیں جنازہ کی نماز، جنازہ مسجد میں رکھ کر جائز ہے یا نہیں ۔(الجواب ) قال فی الدر المختار وکرهت تحریما ً وقیل تنزيهافي مسجد جماعة هوای المیت فيه وحده او مع القوم واختلف فی الخارجة عن ا لمسجد وحده اومع بعض القوم والمختار الکراهة مطلقاً خلاصة بناء علی ان المسجد انما بنی للمکتوبة وتوابعهاالخ وهو الموافق لاطلاق حدیث ابی داؤد من صلی علی میت فی المسجد فلا صلاة له قال فی ردالمحتار قوله فلا صلاةله هذه رواية ابن ابی شیبة ورواية احمد و ابی داؤد:فلا شئی له وابن ماجة:فلیس له شئی وروی فلا اجر له وقال ابن عبدالبر هي خطأ فاحش و الصحیح فلا شئی له الخ وفيه قبیل من صلی علی میت فی مسجد یقتضی کون المصلی فی المسجد سواء کان المیت فيه اولا فیکره ذلک اخذا من منطوق الحدیث ویؤیده ماذکره العلامة قاسم فی رسالته من انه روی ان النبی صلی اﷲ عليه وسلم لما نعی النجاشی الی اصحابه خرج فصلی عليه فی المصلی قال ولو جازت فی المسجد لم یکن للخروج معنیً آه مع ان المیت کان خارج المسجد شامی ج1ص594۔باب صلوةالجنائز۔ ان روایات سے واضح ہے کہ عند الحنفیہ مسجد جماعۃ میں نماز جنازہ مکروہ ہے اور اس میں اختلاف ہے کہ مکروہ تحریمی ہے یا تنز یہی۔ فقط۔
فتاوی رحیمیہ(7/28)میں ہے:
(الجواب)صحیح مسلک، ظاہر مذہب ، اور ظاہر روایت ومفتی بہ قول یہ ہے کہ ’’ بلا عذر اور بلا وجہ جنازہ مسجد میں رکھ کر نماز پڑھنا مکروہ اور ممنوع ہے۔۔۔۔۔۔تیسری صدی ہجری کے محدث فقیہ حضرت امام طحاویؒ المتوفی ۳۲۱ھ فرماتے ہیں :۔۔۔ مسجد میں نماز جنازہ مکروہ ہونے کا قول امام ابو حنفیہؒ اور امام محمدؒ کا ہے اور امام ابو یوسف کا بھی یہی قول ہے (شرح معانی الآثار ج۱ ص ۲۸۵ باب الصلوٰۃ علی الجنازۃ ھل ینبغی ان تکون فی المساجد اولا )۔
فتاوی عثمانی(1/566)میں ہے:
سوال: در صحن مسجد پنج وقتی یا در صحن جامع مسجد بصورت غیر معتاد نماز جنازہ جائز بلا کراہت است یا نہ؟
جواب: نماز جنازہ در مسجد جائز نیست، کذا فی کتب الفقہ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved