- فتوی نمبر: 33-182
- تاریخ: 29 مئی 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وقف کا بیان > مساجد کے احکام
استفتاء
ایک مسئلہ کے متعلق شرعی راہنمائی درکار ہے۔ صورت مسئلہ یہ ہے کہ **** صاحب نے تحصیل ***، ضلع ***کے ایک گاؤں “***“ میں پانچ مرلہ ایک قطعہ زمین ( پلاٹ ) بنام مدرسہ وقف کیا، جس کا انہوں نے متولی و منتظم **** ولد ***صاحب کوبنایا۔ اس وقف کے کچھ عرصہ بعد واقف ***صاحب کا انتقال ہو گیا۔ (رحمہ اللہ تعالی رحمۃ واسعۃً) ان کے انتقال کے بعد *** صاحب کے بیٹوں نے پہلے وقف شد ہ قطعہ زمین(پلاٹ) کے ساتھ زمین کا ایک اور حصہ سوا آٹھ مرلہ قطعہ زمین ( پلاٹ) مسجد و مدرسہ کے لیے وقف کیا، اور اس کا بھی انہوں نے متولی و منتظم **** صاحب کو ہی بنایا، اور **** صاحب کو اس مسجد و مدرسہ کے معاملات کا کلی اختیار دیا کہ جس طرح مناسب سمجھیں مدرسہ و مسجد بنائیں، اور انتظام چلائیں۔ یہ پورا وقف نامہ ایک اسٹام پیپر پر تحریر کیا گیا ہے، جس کی کاپی ساتھ لف کی گئی ہے۔
متولی **** صاحب نے اس موقوفہ زمین میں مدرسہ تعمیر کیا بحمد اللہ مدرسہ میں حفظ و ناظرہ قرآن کریم کی تعلیم کا سلسلہ جاری وساری ہے۔
اور مسجد کی تعمیر کا سلسلہ بھی تقریبا مکمل ہو چکا ہے، جس میں نماز پنجگانہ اور جمعہ و عیدین کی نمازیں پڑھی جارہی ہیں۔
وہاں پہلے سے موجود ایک مسجد جس کے متولی و امام مسلک اشاعت التوحید والسنۃ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ اور ان کے ساتھ محلہ کے چند لوگ ” جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی ” کی ویب سائٹ سے مدرسہ کی جگہ مسجد بنانے کے عنوان سے ایک فتوی کا پرنٹ لے کر لوگوں میں مسلسل یہ اعتراض اور پراپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ یہ مسجد بنانا صحیح نہیں تھا، کیونکہ یہ جگہ صرف مدرسہ کے لیے وقف کی گئی ہے، یہ مسجد شرعی مسجد کے حکم میں نہیں ہے، اس میں نماز پڑھنا صحیح نہیں، جمعہ و عیدین پڑھنا بھی صحیح نہیں۔ جو لوگ اس مسجد میں نماز پڑھیں ان کی نماز ادا نہیں ہوتی۔ حالانکہ اس فتوی میں مذکور صورت مسئلہ اور اس زیر بحث مسئلہ کی صورت بالکل مختلف ہے۔ اس فتوی کی کاپی ساتھ لف ہے،حضرات مفتیان کرام ملاحظہ فرمائیں ۔
حضرات مفتیان کرام سے دریافت طلب امور یہ ہیں کہ :
1۔جب واقفین نے جگہ مدرسہ کے ساتھ ساتھ مسجد کے لیے بھی وقف کی ہے تو کیا اس جگہ مسجد بنانا صحیح نہیں ؟
2۔کیا یہ مسجد “مسجد شرعی ” کے حکم میں ہے ؟
3۔کیا اس مسجد میں نماز پڑھنا جائز اور صحیح ہے ؟
4۔اس مسجد میں نماز جمعہ و عیدین پڑھی جائیں تو ادا ہوجائیں گی یا نہیں ؟کیونکہ پہلے سے موجود مسجد میں بھی نماز جمعہ و عیدین پڑھی جاتی ہیں ۔
5۔جو لوگ اس مسجد میں پانچ وقتہ نمازوں میں سے یا جمعہ و عیدین کی نمازوں میں سے کوئی بھی نماز پڑھیں تو کیا ان کی نماز صحیح ادا ہوجائے گی ؟
براہ مہربانی ان امور کے بارے قرآن و سنت کی روشنی میں راہنمائی فرما کر عند اللہ ماجور ہوں ۔
وقف نامہ کی متعلقہ عبارت :
منکہ ****۔۔۔۔ *** ۔۔۔ پسران *** ۔۔۔ ما مقران جو کہ اراضی مندرجہ ۔۔۔( سوا تیرہ مرلہ ) کے مالک و قابض ہیں ۔۔۔۔ من مقر نے اراضی متذکرہ بالا اللہ کی رضاو خوشنودی کی خاطر اپنی آزاد مرضی سے مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن سرور کونین و جامعہ مسجد **** بذریعہ متولی *** ولد ****۔۔۔۔۔۔ وقف کی۔
تنقیح : ***صاحب کے بیٹو ں نے سو اآٹھ مرلہ والا پلاٹ وقف کرتے ہوئے واقف کو اختیار دیا تھا کہ وہ اس جگہ مسجد یا مدرسہ جو بنانا چاہیں بنالیں ۔ متولی نے اس پلاٹ پر مسجد تعمیر کی ہے ۔
دارالافتاء کے نمبر سے *** صاحب مرحوم کے بیٹے *** صاحب سے جب ان کا موقف لیا گیا تو انہوں نے متولی کے بیان کی تصدیق کی ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ مذکورہ صورت میں اس جگہ مسجد بنانا شرعا ً صحیح ہے۔
توجیہ : واقف نے وقف کرتے ہوئے چونکہ متولی کو مسجد یا مدرسہ بنانے میں سے دونوں باتوں کا اختیار دیا تھا اس لیے متولی کا اس جگہ مسجد بنانا صحیح ہے ۔
2۔ یہ مسجد مسجد شرعی ہے ۔
توجیہ : جب واقف نے زمین کو مسجد کے لیے وقف کردیا اور وہاں باجماعت نماز بھی ادا کی جانے لگی تو یہ بالاتفاق مسجد شرعی بن گئی۔
3۔یہاں نماز پڑھنا جائز اور صحیح ہے ۔
4،5۔ مذکورہ مسجد میں نماز پنجگانہ پڑھی جائیں یا جمعہ و عیدین کی نماز یں سب درست ہیں اور سب نمازوں پر جماعت کا ثواب بھی ملے گا اور مسجد کا اجر بھی ملے گا ۔
الدر المختار مع رد ا لمحتار (4/ 434) میں ہے :
شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به»
الدر المختار مع رد ا لمحتار (4/ 356) میں ہے :
(ويزول ملكه عن المسجد والمصلى) بالفعل و (بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني (وشرط محمد) والإمام (الصلاة فيه) بجماعة . مطلب في أحكام المسجد قلت: وفي الذخيرة وبالصلاة بجماعة يقع التسليم بلا خلاف، حتى إنه إذا بنى مسجدا وأذن للناس بالصلاة فيه جماعة فإنه يصير مسجدا» (قوله: بجماعة) لأنه لا بد من التسليم عندهما خلافا لأبي يوسف، وتسليم كل شيء بحسبه، ففي المقبرة بدفن واحد وفي السقاية بشربه وفي الخان بنزوله كما في الإسعاف، واشتراط الجماعة لأنها المقصودة من المسجد، ولذا شرط أن تكون جهرا بأذان وإقامة وإلا لم يصر مسجدا قال الزيلعي: وهذه الرواية الصحيحة .
فتاوی ہندیۃ (1/ 116) میں ہے :
«وإن صلى بجماعة في البيت اختلف فيه المشايخ والصحيح أن للجماعة في البيت فضيلة وللجماعة في المسجد فضيلة أخرى فإذا صلى في البيت بجماعة فقد حاز فضيلة أدائها بالجماعة وترك الفضيلة الأخرى، هكذا قاله القاضي الإمام أبو علي النسفي، والصحيح أن أداءها بالجماعة في المسجد أفضل» ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved