- فتوی نمبر: 26-374
- تاریخ: 15 اپریل 2022
- عنوانات: عبادات
استفتاء
اگر کسی شخص کا انتقال اپنے شہر سے دور ہو جائے تو اس کی میت کو اپنے شہر میں لے کر آنا مکروہ تحریمی ہے یا مکروہ تنزیہی؟ ملک کے ایک مشہور دارالافتاء والے لکھتے ہے "شرعی عذر کے بغیر ایک جگہ سے دوسری جگہ یا دو میل سے زیادہ دور لے جانے کو فقہاء کرام نے مکروہ لکھا ہے” آگے اسی فتوے کے اندر میت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے عمل کو مکروہ تحریمی لکھا ہے۔ فتوے کی کاپی ساتھ لف ہے۔
مفتی صاحب جمہور فقہاء احناف کے نزدیک تحقیقی بات کیا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
میت کو مقامِ انتقال سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی دو صورتیں ہیں:
پہلی صورت یہ ہے کہ آدمی کا انتقال اپنے مقام (وطن)میں ہوا ہو،اس صورت میں دفن سے قبل نعش کو اس کے اپنے مقام کے قبرستان سے دوسرے مقام کے قبرستان میں دفن کرنے کے لیے لے جانا خلاف اولیٰ ہے جب کہ وہ دوسرے مقام کا قبرستان ایک میل یا دو میل سے زیادہ نہ ہو اور اگر اس سے زیادہ ہو تو جائزنہیں اور مکروہ تحریمی ہے۔ البتہ ایک مرجوح قول کے مطابق بلا کراہت بھی جائز ہے۔ لف شدہ فتوے میں جو دلائل مذکور ہیں ان کا تعلق اسی پہلی صورت کے ساتھ ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ کسی شخص کا انتقال اپنے مقام (وطن) میں نہ ہوا ہو۔
اس صورت کا حکم یہ ہے کہ جس شہر میں میت کا انتقال ہوا ہے اسی شہر میں اس کو دفن کر نا مستحب ہے لیکن اگر اپنے شہر لے آئیں تو یہ بھی بلا کراہت کے جائز ہے۔
حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح(صفحہ نمبر :613,614) میں ہے:
(فإن نقل قبل الدفن قدر ميل أو ميلين) ونحو ذلك (لا بأس به) لأن المسافة إلى المقابر قد تبلغ هذا المقدار (وكره نقله لأكثر منه) أي أكثر من الميلين كذا في الظهيرية وقال شمس الأئمة السرخسي وقول محمد في الكتاب لا بأس أن ينقل الميت قدر ميل أو ميلين بيان أن النقل من بلد إلى بلد مكروه.
قوله: (بيان أن النقل من بلد إلى بلد مكروه) أي تحريما.
دوسری صورت کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
فتاویٰ قاضی خان(347/1) میں ہے:
لو مات في غير بلده يستحب تركه فإن نقل إلى مصر آخر لا بأس به لما روي أن يعقوب صلوات الله عليه مات بمصر ونقل إلى الشام وموسى عليه السلام نقل تابوت يوسف عليه السلام من حبش إلى الشام وسعد ابن أبي وقاص مات في ضيعة على أربعة فراسخ من المدينة ونقل على أعناق الرجال إلى المدينة.
فتاویٰ تاتارخانیۃ (133/2) میں ہے:
لو مات في غير بلده فيستحب تركه ، فإن نقل إلى مصر آخر لا بأس لما روي أن يعقوب صلوات الله عليه مات بمصر ونقل إلى الشام بعد زمان وموسى عليه السلام نقل تابوت يوسف عليه السلام من حبش إلى الشام وسعد ابن أبي وقاص رضي الله عنه مات في ضيعة على أربعة فراسخ من المدينة ونقل على أعناق الرجال إلى المدينة.
حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح(صفحہ نمبر :614) میں ہے:
لو مات في غير بلده يستحب تركه فإن نقل إلى مصر آخر لا بأس به لما روي أن يعقوب صلوات الله عليه مات بمصر ونقل إلى الشام وسعد ابن أبي وقاص مات في ضيعة على أربعة فراسخ من المدينة ونقل على أعناق الرجال إلى المدينة.
فتاویٰ ہندیہ (350/1) میں ہے:
وكذا لو مات في غير بلده يستحب تركه فإن نقل إلى مصر آخر لا بأس به .
مجمع الأنهر (1/ 276) میں ہے:
وكذا لو مات في غير بلده يستحب تركه فإن نقل إلى مصر آخر فلا بأس به.
درر الحكام شرح غرر الأحكام(1/ 167) میں ہے:
وكذا لو مات في غير بلده يستحب تركه فإن نقل إلى مصر آخر لا بأس به.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved