• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

  میت پر قرض کا دعویٰ

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نواز نامی ایک شخص کا اچانک انتقال ہو گیا، اس کے ورثاء نے یہ اعلان کیا کہ ہمارے بھائی سے جس جس کا بھی کچھ لین دین کا معاملہ ہو تو وہ ہم سے رابطہ کرے، ہم اپنے بھائی کا قرض ادا کریں گے۔ چنانچہ لوگوں کے رابطہ کرنے پر انہوں نے اپنے بھائی کے قرض کے تقریباً ایک کروڑ پینتیس لاکھ روپے ادا کردیے۔ مرحوم کے انتقال کے چھ ماہ بعد ایک شخص شفیق نامی آکر کہتا ہے کہ میں نے مرحوم سے اٹھائیس لاکھ لینا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ شخص ورثاء سے ایک کار کے (جو کہ مرحوم کے زیر استعمال تھی اور جس کی قیمت ساڑھے سات لاکھ تھی) پیسے لے چکا ہے، اس وقت بھی اس نے اٹھائیس لاکھ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ اب اس اٹھائیس لاکھ میں سے صرف چھ لاکھ پر ایک گواہ پیش کرتا ہے، باقی رقم پر اس کے پاس نہ کوئی گواہ ہے، نہ تحریر ہے، نہ اس کے اپنے پاس کوئی ریکارڈ موجود ہے۔ اب ہمیں قرآن وسنت کی روشنی میں بتائیں کہ یہ رقم ہمارے ذمہ دینا بنتی ہے یا نہیں؟ تاکہ نہ ہم اللہ تعالیٰ کے ہاں مجرم ہوں اور نہ ہمارے بھائی مرحوم مجرم ہو۔

سائل: محمد ریاض محمود باجوہ                                          بواسطہ: مولوی اسد صاحب

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت  میں چھ لاکھ یا اٹھائیس لاکھ کے ثبوت کے لیے ضروری ہے کہ کم از کم دو معتبر گواہ یا کوئی معتبر تحریر موجود ہو، صرف ایک گواہ کافی نہیں۔ لہذا اگر شفیق کے پاس  دو معتبر گواہ یا کوئی معتبر تحریر موجود نہیں تو ورثاء کے ذمے قسم آئے گی۔ اگر ورثاء قسم کھا لیتے ہیں تو  دعویٰ ختم ہو جائے گا، اور شفیق کو کچھ نہیں ملے گا، اور اگر ورثاء قسم کھانے سے انکار کریں تو شفیق کا دعویٰ معتبر سمجھا جائے گا اور ورثاء کے ذمے اٹھائیس لاکھ دینے ہوں گے۔

نوٹ: دعویٰ ثابت  ہونے کی صورت میں مذکورہ رقم ادا کرنا ورثاء کے ذمہ تب بنتا ہے، جب میت کا ترکہ موجود ہو۔ اگر میت کا کوئی ترکہ موجود نہ ہو  تو ورثاء کے ذمہ اپنے مال سے ادا کرنا لازم نہیں، تاہم پھر بھی ادا کر دیں تو کچھ حرج نہیں۔

نوٹ: ورثاء سے قسم ان کے علم پر لی جائے گی نہ کہ اصل حقیقت پر۔ مثلاً وہ یوں قسم دیں گے کہ:

’’اللہ تعالیٰ کی قسم ہمارے علم کے مطابق مذکورہ شخص یعنی شفیق کے ہمارے مرحوم بھائی فلاں (نام لے کر) کے ذمے کوئی قرض نہیں۔‘‘

الفتاوى الهندية (3/ 406)

لو أن رجلا قدم رجلا إلى القاضي وقال إن أبا هذا قد مات ولي عليه ألف درهم دين فإنه ينبغي للقاضي أن يسأل المدعى عليه هل مات أبوه ولا يأمره بجواب دعوى المدعي أولا فبعد ذلك المسألة على وجهين إما إن أقر الابن فقال نعم مات أبي أو أنكر موت الأب فإن أقر وقال نعم مات أبي سأله القاضي عن دعوى الرجل على أبيه فإن أقر له بالدين على أبيه يستوفى الدين من نصيبه ولو أنكر فأقام المدعي بينة على ذلك قبلت بينته وقضي بالدين ويستوفى الدين من جميع التركة لا من نصيب هذا الوارث خاصة….. وإن لم تكن للمدعي بينة وأراد استحلاف هذا الوارث يستحلف على العلم عند علمائنا رحمهم الله تعالى بالله ما تعلم أن لهذا على أبيك هذا المال الذي ادعى وهو ألف درهم ولا شيء منه فإن حلف انتهى الأمر وإن نكل يستوفى الدين من نصيبه.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved