• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مہر کے دین کی وجہ سے صاحب نصاب پر زکوۃ کا حکم

استفتاء

ایک حافظ صاحب ہیں وہ امامت کراتے ہیں۔ ان کی تنخواہ پاکستانی 9ہزار ہے۔ ان کے پاس تقریباً پاکستانی 4لاکھ روپے ہیں۔ اور یہ 4لاکھ بھی 6سال تک تدریس و امامت کرکے جمع کیے ہیں ساتھ میں معمولی سا تجارت کرکے اور ان کا بیٹا بیمار ہے جس کو فالج ہے۔ اب حافظ صاحب تجارت کرتے ہیں تاکہ جو منافع ہو اس سے اپنے بیٹے کا علاج   کرے۔

اور حافظ صاحب  پر بیوی کے تقریباً پاکستانی 10لاکھ روپے مہر قرض بھی ہے۔  بیوی مطالبہ بھی کرتی ہے کہ آپ کے پاس جب بھی ہوں تو مجھے میرا مہر دے دینا اور شوہر کی بھی نیت یہی ہے کہ جب ہوگا دے دوں گا۔ اور اس حافظ صاحب کا اپنا گھر تک بھی نہیں ہے

  1. تو کیا اس حافظ پر 4لاکھ کی وجہ سے زکوۃ دینا واجب ہوگا؟ جب کہ قرض اس سے بھی زیادہ ہے مہر کی صورت میں۔
  2. اس قرض کی وجہ سے حافظ صاحب کو زکوۃ مل سکتی ہے؟

کیونکہ بیوی کو جو مہر کی رقم دینی ہے وہ 4لاکھ سے زیادہ 10لاکھ ہے۔ اب اگر بیوی کو 4لاکھ مہر کی رقم دے تو تب بھی 6لاکھ باقی رہتے ہیں۔

ان تمام صورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مدلل اور تفصیل کی ساتھ جواب دے کر مشکور فرمائیں

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

  1. مذکورہ صورت میں حافظ صاحب پر زکوۃ واجب نہیں کیونکہ جو مال اس کے پاس ہے اُس سے زیادہ کا مقروض ہے۔ جو مقروض ہو اور اس سے مطالبہ بھی کیا جاتا ہو تو اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوتی۔
  2. مقروض ہونے کی وجہ سے حافظ صاحب زکوۃ کے مستحق ہیں۔

الجوهرة النيرة (1/139)میں ہے:

"قال في النهاية : كل دين له مطالب من جهة العباد فانه يمنع وجوب الزكوة سواء كان الدين للعباد او لله تعالي كدين الزكوة  فالذی له مطالب من جهة العباد كالقرض و ثمن المبيع وضمان المتلف و ارش الجراحة والمهر .”

بدائع الصنائع (2/83) میں ہے:

"ومنها ان لا يكون عليه دين مطالب به من جهة العباد عندنا فان كان فانه يمنع وجوب الزكوة بقدره حالا كان او مؤجلا …………….. وعلي هذا يخرج مهر المراة فانه يمنع وجوب الزكوة عندنا معجلا كان او مؤجلا لانها اذا طالبته يؤاخذ به .”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved