• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مہر کی مقدار میں تحدید کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ موجودہ حالات کے مطابق جو کہ فتنہ و فساد کا دور ہے اگر سدمفاسد کے لیے علماء یا مشیران قوم مہر کی مقدار میں تحدید کردیں اور ایک خاص مقدار متعین کردیں تو شرعی لحاظ سے یہ جائز ہوگا یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

شریعت نے مہر کی کم سے کم مقدار تو مقرر کی ہے جو کہ دس درہم  یعنی دوتولہ ساڑھے سات ماشہ (30.55گرام) چاندی یا اس کی قیمت ہےجبکہ زیادہ سے زیادہ  مقدار مقرر نہیں فرمائی بلکہ اسے لوگوں کی حیثیت پر چھوڑ دیاہے جتنا چاہیں مقرر کرلیں  لہذاکسی مشیران قوم یا علماء عظام کو مہر کی زیادہ سے زیادہ  مقدار مقررکرنے کا حق حاصل نہیں ہے ہرشخص اپنی حیثیت کے مطابق مہر مقرر کرسکتا ہے البتہ بہت  زیادہ مہر مقرر کرنا شرعا پسندیدہ نہیں۔

تفسیر ابن کثیر(1/442)میں ہے:

عن مسروق قال : ركب عُمَر بن الخطاب منبر رسول الله صَلَّى الله عَلَيه وسَلَّم ثم قال : أيها الناس ما إكثاركم في صداق النساء وقد كان رسول الله صَلَّى الله عَلَيه وسَلَّم وأصحابه والصدقات فيما بينهم أربعمئة درهم فما دون ذلك  فلو كان الإكثار في ذلك تقوى عند الله  عَزَّ وَجلَّ  أو مكرمة لم تسبقوهم إليها  فلأعرفن ما زاد رجل على أربعمئة درهم . ثم نزل  فاعترضته امرأة من قريش  فقالت : يا أمير المؤمنين نهيت الناس أن يزيدوا النساء في صدقاتهن على أربعمائة درهم ؟ قالت : نعم . قالت : أما سمعت الله عَزَّ وَجلَّ  في القرآن ؟ فقال : فأي ذلك ؟ فقالت : أما سمعت الله عَزَّ وَجلَّ  يقول : {وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلاَ تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا} فقال : اللهم غفرًا، كل الناس أفقه من عُمَر . قال : ثم رجع فركب المنبر  فقال : أيها الناس إني كنت نهيتكم أن تزيدوا في صدقاتهن على أربعمائة  فمن شاء أن يعطي من ماله ما أحب.

ترمذی(1/340)میں ہے:

قال عمر بن الخطاب ألا لا تغالوا صدقة النساء فإنها لو كانت مكرمة في الدنيا أو تقوى عند الله لكان أولاكم بها النبي صلى الله عليه و سلم ما علمت رسول الله صلى الله عليه و سلم نكح شيئا من نسائه ولا أنكح شيئا من بناته على أكثر من ثنتي عشرة أوقية

در مختار مع رد المحتار (4/220)میں ہے:

( أقله عشرة دراهم ) لحديث البيهقي وغيره لا مهر أقل من عشرة دراهم۔۔۔ ويجب ( الأكثر منها إن سمى ) الأكثر

قال ابن عابدین: قوله : (ويجب الأكثر) ای : بالغا مابلغ

فتاوی محمودیہ(12/37)میں ہے:

سوال:قوم کے سربرآور دہ لوگوں نے یہ تجویز پاس کی ہے کہ آئندہ سب لوگوں کو اپنی اولاد کے نکاح ۲۵روپے سے زیادہ پر نہ کرنا چاہئے ، چنانچہ تمام قوم اس کی پابند ہے،مخالف پر جرمانہ وغیرہ کیا جاتا ہے  تو تعیین مہر کا ان لوگوں کو حق ہے یا نہیں ؟اور صحت نکاح میں کوئی خرابی ہے یا نہیں ؟

جواب: مہرپچیس روپیہ یا اس سے زائد یا اس سے کم دس درہم تک مقرر کرنا جائز ہےاور بہر صورت نکاح صحیح ہوجاتا ہے۔کم کی مقدار دس درہم شریعت کی جانب سے متعین ہے، زیادہ کی مقدار متعین نہیں ، کسی اور کو انتہائی مقدار لازمی طور پر متعین کرنے کا حق حاصل نہیں  ،نہ کسی کی تعیین سے متعین ہوسکتی ہے، البتہ زیادہ مہر مقرر کرنا کچھ فضیلت کی بات نہیں خصوصا جب کہ اس کی وسعت بھی نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved