• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مہر پر زکوٰۃ کا حکم

استفتاء

مفتی صاحب ایک سوال ہے کہ نکاح کا مہر 20 تولہ سونا لکھا ہے اور 10 تولہ بیوی کو ادا کردیا،10 باقی ہے،اب زکوۃ 10 کی دیں گے یا20 تولہ کی؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر بیوی بسہولت 20 تولہ کی زکوۃ ادا کر سکتی ہو تو 20 تولہ کی زکوۃ ادا کر دے لیکن اگر 20 تولہ کی زکوۃ ادا نہیں کر سکتی تو 10 تولہ کی زکوۃ ادا کر دے۔

توجیہ : بیوی کا جو مہر شوہر کے ذمہ واجب الاداء ہو، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک دین ضعیف ہے۔ اور دین ضعیف کا حکم یہ ہے کہ اس کی زکوۃ کا حساب ملنے کے دن سے ہے۔ ملنے سے قبل اس پر زکوۃ واجب نہیں ۔ جبکہ امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کے نزدیک یہ مہر دین قوی ہے لہٰذا اس پر قبضہ سے پہلے بھی زکوة واجب ہے۔

بدائع الصنائع ( 90/2) میں ہے۔

وأما الدین الضعیف فهو الذى وجب له لا بدلا عن شئ … أو وجب بدلا عما ليس بمال كالمهر …. ولا زكوۃ فیه مالم یقبض كله ویحول علیه الحول بعد القبض …. وقال أبو يوسف ومحمد الديون كلها سواء وکلها قوية تجب الزکوة فيها قبل القبض.

ہندیہ(1/175) میں ہے :

وأما سائر الديون المقربها فهى على ثلاثة مراتب عند أبي حنيفة ضعيف وهو كل دين ملكه بغير فعله … أو بفعله بدلا عما ليس بمال كالمهر … لازكوة فيه حتى يقبض نصابا ويحول  عليه الحول .

مسائل بہشتی زیور (1/355) میں ہے :

دین ضعیف : یہ وہ دین ہے جو مال کا بدل نہ ہو یعنی نہ تو نقدی یا سونے چاندی کے قرض کے بدلہ میں ہو اور نہ ہی تجارتی یا غیر تجارتی سامان کی فروخت کے عوض میں  واجب ہوا ہو مثلا شوہر کے ذمہ مہر ہو جو ابھی نہ ملا ہو یا وصیت کا مال ہو جو وارث نے ابھی نہ دیا ہو یا دیت ہو جو قاتل نے ابھی تک ادا نہ کی ہو اور کئی برسوں کے بعد یہ مال ملا تو اس کی زکوۃ کا حساب ملنے کے دن سے ہے۔پچھلے برسوں کی زکوۃ واجب نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved