- فتوی نمبر: 4-187
- تاریخ: 20 اگست 2011
- عنوانات: اہم سوالات
استفتاء
تقریباً چھ سال پہلے ہماری والدہ کا انتقال ہوگیاتھا انہوں نے کچھ مال چھوڑا ہے۔ اپنی زندگی میں جو انہوں نے کسی کو نہیں دیا تھا نہ
ہی موت کے وقت کسی کو وصیت کی تھی کیونکہ وہ موت سے پہلے ہی کئی روز تک بول نہ سکی تھی۔ پہلے تو سب بہن بھائی خوشی سے رہتے رہے۔ اب کچھ باتیں ہوئی ہیں والدہ کے مال و اسباب کے بارے میں کیونکہ کچھ سامان والد صاحب کے پاس ہے اور کچھ بھائیوں کے پاس ہے بہنوں کے پاس کچھ نہیں ہے۔ وہ شادی شدہ ہیں۔ ہماری تین بہنیں ہیں۔ اور ہم دو بھائی ہیں ہمارے والد صاحب بھی ہمارے ہی پاس رہتے ہیں اور ہمارا ایک ماموں زندہ ہے اور ایک فوت ہوگئے ہیں یعنی ہماری والدہ کے بھائی دو ہیں۔ میرے پانچ بچے ہیں اور میرے بھائی کا ایک بچہ ہے۔
اب ہم اپنی والدہ کا مال و سامان زیور وغیرہ تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ آپ ہماری رہنمائی فرمائیں کہ ہم کس طرح مال تقسیم کریں ا ن سب وارثوں کو کتنا کتنا حصہ ملے گا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں کل ترکہ کے 28 حصے کر کے شوہر کو 7 حصے، ہر بیٹے کو 6 حصے، اور ہر بیٹی کو 3 حصے ملیں گے۔
جس کے تقسیم کی صورت یہ ہے:
4×7=28
شوہر 2 بیٹے 3 بیٹیاں
4/1 مابقی
7×1 7×3
7 21
7 6+6 3+3+3
میت کے بھائی اور پوتوں کو کچھ نہیں ملے گا۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved