• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میت کے پاس تلاوت اور میت پر پھول ڈالنے کا حکم

استفتاء

1۔پوچھنا یہ تھا کہ اکثر لوگ میت کو دفنانے سے پہلے  میت کی چارپائی کے  چاروں پایوں کے پاس کھڑے ہو کر سورۃ ملک پڑھتے ہیں۔ اس میں کوئی بدعت یا حرج تو نہیں؟ کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے؟2۔ میت پر یعنی کفن پر پھول ڈالنا کیسا ہے؟

وضاحت مطلوب ہے: میت کی چارپائی کے پاس سورۂ  ملک پڑھنے کی وجہ کیا ہے؟  کیا اس کو لازمی و ضروری سمجھ کر پڑھتے ہیں؟  چار لوگ پڑھتے ہیں یا کوئی ایک بھی پڑھ سکتا ہے؟

جواب وضاحت:  جی اکثر لوگ لازمی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چار لوگ پڑھیں۔ اگر لازم نہ سمجھا جائے تو کیا ویسے ثواب کے لیے پڑھ سکتے ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔میت کو  غسل دینے  سے پہلے میت کے پاس  بلند آواز سے تلاوت کرنا   مکروہ  تنزیہی ہے، ہاں اگر میت کو کپڑے سے اچھی طرح ڈھانپ دیا جائے یا آہستہ آواز سے تلاوت کی جائے  تو غسل دینے سے پہلے بھی میت  کے پاس تلاوت  کرسکتے ہیں، البتہ  جب میت کو غسل دے دیا جائے تو پھر اس کے پاس قرآن پڑھنے میں کوئی حرج نہیں خواہ بلند آواز  سے  پڑھیں یاآہستہ آواز سے، اسی  طرح میت کو کپڑے سے ڈھانپا  گیا ہو یا نہ ڈھانپا گیا ہو ۔ لیکن کسی سورت کی تخصیص  نہیں اور نہ ہی خاص عدد میں افراد کے پڑھنے کی تخصیص ہے لہٰذا اگر کوئی  اس کسی خاص عدد میں افراد کے پڑھنے کو لازم سمجھتا ہو تو یہ بدعت ہوگا۔

2۔ میت کے کفن پر پھول ڈالنا  ایک بے فائدہ عمل ہے لہذااس سے بچنا چاہیے، اس سے بہتر یہ ہے کہ جتنے پیسے پھول خریدنے میں خرچ کیے جائیں  اتنے پیسے  ایصالِ ثواب کی نیت سے  کسی غریب کو یا کسی مسجد، مدرسے  میں دے دیے جائیں۔

1۔فتاوی شامی(2/196) میں ہے:

تكره القراءة عنده حتى يغسل، وعلله الشرنبلالي في أمداد الفتاح ‌تنزيها ‌للقرآن عن نجاسة الميت لتنجسه بالموت، قيل نجاسة خبث وقيل حدث، وعليه فينبغي جوازها كقراءة المحدث

(قوله كقراءة المحدث) فإنه إذا جاز للمحدث حدثا أصغر القراءة فجوازها عند الميت المحدث بالأولى

فتاوی شامی(2/193،194) میں ہے:

الحاصل ‌أن ‌الموت ‌إن ‌كان حدثا فلا كراهة في القراءة عنده، وإن كان نجسا كرهت، وعلى الأول يحمل ما في النتف وعلى الثاني ما في الزيلعي وغيره. وذكر ط أن محل الكراهة إذا كان قريبا منه، أما إذا بعد عنه بالقراءة فلا كراهة. اهـ.

قلت: والظاهر أن هذا أيضا إذا لم يكن الميت مسجى بثوب يستر جميع بدنه لأنه لو صلى فوق نجاسة على حائل من ثوب أو حصير لا يكره فيما يظهر فكذا إذا قرأ عند نجاسة مستورة وكذا ينبغي تقييد الكراهة بما إذا قرأ جهرا………… فتحصل من هذا أن الموضع إن كان معدا للنجاسة كالمخرج والمسلخ كرهت القراءة مطلقا، وإلا فإن لم يكن هناك نجاسة ولا أحد مكشوف العورة فلا كراهة مطلقا وإن كان فإنه يكره رفع الصوت

شرح المشکوٰۃ للطیبی (3/1051) میں ہے:

ان من اصر على امر مندوب، وجعله عزما ولم يعمل بالرخصة فقد اصاب منه الشيطان من الاضلال وكيف بمن اصر على بدعة و منكر؟

احسن الفتاوی(4/252) میں ہے:

سوال: میت کو نہلانے سے پہلے اس کے پاس قران پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب:  میت کو کپڑے سے ڈھانک دیا جائے تو اس کے پاس تلاوت میں کوئی حرج نہیں ورنہ مکروہ ہے، اور نہلانے کے بعد بہرصورت کوئی کراہت نہیں۔

2۔ عمدة القاری(3/121) میں ہے:

قال العيني : انكر الخطابي ومن تبعه وضع الجريد اليابس، وكذلك مايفعله اكثرالناس من وضع ما فيه رطوبة من الرياحين والبقول ونحوهما علي القبور ليس بشئ

احسن الفتاوی(1/378) میں ہے:

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام دریں مسئلہ کہ میت پر پھولوں کی چادر پہنانا درست ہے یا نہیں؟ نیز ایسی میت کی نمازہ جنازہ پڑھانے سے انکار کرنا درست ہے یا نہیں؟

جواب: جنازہ پر پھولوں کی چادر ڈالنا بدعت ہے لہذا اس کی نمازہ جنازہ پڑھانے سے انکار کرنا درست ہے۔

فتاوی محمودیہ(9/173) میں ہے:

سوال: قبر یا کفن پر پھول ڈالنا کیسا ہے؟

جواب:…… نہ کفن پر پھول ڈالے جائیں نہ قبر میں۔

فتاوی رحیمیہ(2/258) میں ہے:

سوال: کوئی بڑا سیاستدان  یا اعلی افسر فوت ہوجاتا ہے تو اس کے جنازہ پر  پھولوں کی چادر ڈالی جاتی ہے اور اخبارات وغیرہ  میں اس کی تصویر بھی آتی ہے کہ فلاں  صاحب فلاں مرحوم کے جنازہ پر پھولوں کی چادر چڑھا رہے ہیں۔ کیا  یہ درست ہے؟

جواب: میت پر پھولوں کی چادر چڑھانا مکروہ  تحریمی اور بدعت ہے …

حضرت شاہ صاحب محدث دہلوی ؒ مسائل اربعین میں فرماتے ہیں:

"وچادرِ گل بر جنازہ انداختن بدعت و مکروہ تحریمی”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved