- فتوی نمبر: 34-173
- تاریخ: 13 دسمبر 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وقف کا بیان > مدارس کے احکام
استفتاء
میں ایک دینی ادارے کا مہتمم ہوں۔ اس سے قبل میرا ذاتی کراکری کا کاروبار تھا لیکن جب میں نے گھر مدرسے کے ساتھ منتقل کیا تو میرا کاروبار متاثر ہو گیا۔ فی الحال میں نے بنات کا مدرسہ قائم کیا ہے اور اپنا گھر بھی اسی مدرسے کے ساتھ منتقل کر لیا ہے۔ مدرسے میں ، میں خود تدریس کے فرائض سرانجام دیتا ہوں، میری دو بیٹیاں بنات کو پڑھاتی ہیں، اور میرے دو بیٹے اسی مدرسے میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں میری اہلیہ مہمانوں اور مدرسے کے دیگر امور کے لیے کھانے پینے کی تیاری میں ہر وقت مصروف رہتی ہیں۔اس صورتحال میں میری گذارش یہ ہے کہ کیا میرے اور میرے اہلِ خانہ (بیوی، بیٹے، بیٹیاں) کے لیے مدرسے کے فنڈ سے گھر کا کھانا پینا لینا شرعاً جائز ہوگا یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
آپ مدرسے کے فنڈ سے اپنے اہل خانہ کے لیے کھانا پینا لے سکتے ہیں لیکن اس میں چند باتوں کا لحاظ رکھا جائے :
1۔زکوۃ و صدقات کی رقم بغیر تملیک کے نہ لیں
2۔مدرسے سے کھانے کی مد میں اپنے وظیفے میں کھانے کے بقدر متعین اضافہ کر لیں یا راشن کی مخصوص مقدار لے لیں مثلا اتنے کلو سبزی ، آئل وغیرہ ۔
3۔اگر پکا پکایا کھانا ہی لینا ہو تو اس کی مقدار بھی متعین ہو کہ اتنے افراد کا کھانا ہوگا چاہے اس کے لیے کوئی برتن متعین کر لیا جائے ایسا نہ ہو جتنا مرضی لے لیا جائے۔
البحر الرائق (7/ 168)میں ہے :
وفي منية المفتي أقسام المتصرفين تصرف الأب والجد والوصي ومتولي الوقف لا يجوز إلا بمعروف أو بغبن يسير
البحر ارائق (8/ 4)میں ہے :
وإجارة الوقف ومال اليتيم لا يجوز إلا بأجر المثل
شامی (4/ 435)میں ہے :
ليس للقاضي أن يقرر وظيفة في الوقف بغير شرط الواقف، ولا يحل للمقرر الأخذ إلا النظر على الواقف بأجر مثله
(قوله: بأجر مثله) وعبر بعضهم بالعشر والصواب أن المراد من العشر أجر المثل حتى لو زاد على أجر مثله رد الزائد كما هو مقرر معلوم، ويؤيده أن صاحب الولوالجية بعد أن قال: جعل القاضي للقيم عشر غلة الوقف فهو أجر مثله، ثم رأيت في إجابة السائل، ومعنى قول القاضي للقيم عشر غلة الوقف أي التي هي أجر مثله لا ما توهمه أرباب الأغراض الفاسدة إلخ بيري على الأشباه من القضاء.
فتح القدیر (6/ 240)میں ہے :
وللمتولي أن يستأجر من يخدم المسجد بكنسه ونحو ذلك بأجرة مثله أو زيادة يتغابن فيها، فإن كان أكثر فالإجارة له وعليه الدفع من مال نفسه، ويضمن لو دفع من مال الوقف
شامی (4/ 366)میں ہے :
(ويبدأ من غلته بعمارته) ثم ما هو أقرب لعمارته كإمام مسجد ومدرس مدرسة يعطون بقدر كفايتهم
خیر الفتاوی( 6/672)میں ہے :
سوال : ایک مدرس جبکہ وہ تنخواہ مدرسہ سے لیتا ہے پھر اپنا اور بچوں کا کھانا مکمل طور پر نمک مرچ اور آٹے کی پسائی تک مدرسہ سے لیتا ہے جبکہ مکان اور بجلی کا بل بھی مدرسہ کے ذمہ ہے ۔علاوہ ازیں مدرس کے مہمانوں کا مکمل خرچ مدرسہ کے ذمہ ہے اگر صدقہ کا مال یا کوئی اور چیز مثلا گوشت وغیرہ یا دودھ وغیرہ طلبہ کے لیے آجائے تو ان میں سے اپنے بیوی بچوں کا حصہ بھی نکالتا ہے۔نہ ملنے پر ناراض ہوتا ہے۔کیا از روئے شریعت یہ سب کچھ جائز ہے کہ مدرس کو تنخواہ اور مکان کے علاوہ ہمہ سہولیات زندگی میسر کی جائیں گی یا نہیں؟ نیز مہتمم صاحب تنخواہ اور مکان کے علاوہ مذکورہ بالا سہولیات مدرسہ کی طرف سے مدرس کو میسر کریں تو عند اللہ ماجور ہوں گے یا نہیں ؟ قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں ۔
الجواب :زکوۃ ،عشر و صدقات واجبہ سے مدرس کو براہ راست تنخواہ دینا شرعاً جائز نہیں اور اس مد میں آنے والی اشیاء سے مدرس کا اپنی بیوی بچوں کے لیے حصہ نکالنا جائز نہیں کیونکہ زکوۃ کی تعریف میں یہ شرط ہے کہ وہ کسی منفعت کے بدلے میں نہ ہو ۔مع قطع المنفعة عن الملك من كل وجه (الدر المختار جلد 3 ص 206)
اسی طرح کھانے اور مہمانوں کے اخراجات وغیرہ کو تنخواہ کا حصہ بنانا شرعاً جائز نہیں اس صورت میں اجارہ فاسد ہے۔وكل اجارة فيها رزق او علف فهي فاسدة (ہندیہ،جلد4 ص 442)
الحاصل: حضرت مہتمم صاحب کی اس قدر فیاضی مدرسہ کے وقف کے مال کے شرعی اصول کے خلاف ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved