• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مضاربت کی ایک صورت

  • فتوی نمبر: 17-297
  • تاریخ: 18 مئی 2024

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اعظم صاحب کی طرف سے ساڑھے سات لاکھ روپے گاڑی خریدنے کے لئے زیددیناطے ہوئے۔گاڑی خریدنے سے پہلے یہ بات طے ہوئی کہ ( زید) چھوٹی گاڑی خریدنے پر 5000 کمیشن لے گا اور بڑی گاڑی پر 25 ہزارکمیشن لےگا، اب زید نے ایک گاڑی کا سودا بغیر کچھ پیشگی رقم دئیے5000 77 روپے میں کر لیا اور اپنے پاس سے ایک لاکھ روپے بیعانہ بھی کردیا،اس کے بعد اعظم صاحب کو فون کیا کہ آپ 7 لاکھ 50 ہزار روپے بھجوادیں، کچھ رقم ڈال کر میں آپ سے مضاربت پرکام کروں گا، اس سودے میں جو نفع ہوگا وہ نصف نصف تقسیم ہوگا،وہ اس پر راضی ہوگئے ۔پھر زید نے یہ گاڑی ایک کمیشن ایجنٹ کے ذریعے اس طرح فروخت کی کہ اس کمیشن ایجنٹ نے ایک شخص کو آٹھ لاکھ 25 ہزار روپے میں طے کرکے زید کو بتلائے بغیر آکر اصرار کیا کہ گاڑی آٹھ لاکھ میں دے دو،زید نے نیم رضامندی کے ساتھ گاڑی کے کاغذات اس کے حوالے کردیئے اوراس کمیشن ایجنٹ کے ایک ساتھی سے خفیہ طور سے معلوم کیا کہ گاڑی کا سودا کتنے میں ہوا ہے؟ اس نے بتلا دیا کہ آٹھ لاکھ 25 ہزار میں،یہ معلوم کرنے کے بعد زید نے کمیشن ایجنٹ پر اصرار کیا کہ تم مجھ سے دھوکہ کر رہے ہو ،میں تمہیں آٹھ لاکھ دس ہزار سے کم میں گاڑی نہیں دوں گا ،کمیشن ایجنٹ نے چاروناچار آٹھ لاکھ 7 ہزار روپے دیے جو زید نے بادل نخواستہ قبول کر لیے، پھر زید نے نفع کی رقم نصف اعظم صاحب کو دے دی اور نصف خود رکھ لی۔

برائے مہربانی اس میں جو غلطی ہو اس کی نشاندہی فرمادیں اور زید کے لیے کتنا نفع حلال ہے؟اور زید کے ذمے میں کیا آتا ہے؟

نوٹ:یہ سوال پہلے سوال کےمتعلقہ ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ زید نے جب یہ گاڑی خریدی ،اس کے کاغذات میں کمی تھی جس کو پورا کرنے کی ذمہ داری مالک کی ہوتی ہے ،یہ ایسی کمی تھی جو ایک دفتر والے ہی بتا سکتے ہیں، خریدتے وقت یہ کمی سامنے نہیں آئی تھی ،زید نے یہ گاڑی سجاد احمد سے خریدی اور کاغذات کی پڑتال کے بغیر اس اعتماد پر خریدی کہ اگرقانونی طور پر کوئی کمی ہوگی تو سجاداحمدپوری کروا کر دیں گے ،اسی طرح سجاد احمد نے گاڑی سابقہ مالک ذوالقرنین سے اورذوالقرنین نےاسی طرح سابقہ مالک زوہیب سےخریدی تھی ۔سب کے ہاں یہ کمی چلتی آرہی تھی۔

زید سے کاغذات کی کمی پوری کرنے کے لیے جب کمیشن ایجنٹ نے رابطہ کیا تو زید نے سجاد احمد سے اورسجاد احمد نے ذوالقرنین سے رابطہ کیا تو جواب ملا کہ میں کسی طرح کی کمی کا ذمہ دار نہیں ہوں اور کاغذات پورے کرنے کے لیے اگر دفتر میں کوئی اخراجات ہوتے ہیں تو میں کسی طرح کاکوئی خرچ نہ دوں گا ۔اب کاغذات کی تکمیل پر آٹھ ہزار روپے خرچ ہوئے جس میں تین ہزار روپے زبر دستی کمیشن ایجنٹ سے وصول کئے کہ تم نے آٹھ لاکھ کے بجائے آٹھ لاکھ 7 ہزار دیئے تھے اور باقی زید نے اپنے پاس سے ادا کئے، اس کے علاوہ زید نے خود زوہیب اعجاز سے گاڑ ی  سے نکلا ہواسی ،این، جی سلنڈر مانگا جو اس نے گاڑی کا ایک حصہ سمجھتے ہوئے اور ذوالقرنین کا وکیل سمجھتے ہوئے زید کو بلا قیمت دے دیا۔

برائے مہربانی اس معاملے میں غلطیوں کی نشاندہی اور ان کی اصلاح فرما دیں اور زید کےذمہ کس سے کیا لینا دینا ہے؟ تاکہ ہر صاحب حق کو اس کا حق پہنچے اور اللہ تعالی کے نزدیک بھی بری الذمہ ہو جائیں۔ وضاحت فرمائیں

وضاحت مطلوب ہے: جب سائل نے گاڑی خریدی تھی تو اپنی نیت کرکے خریدی تھی یا اعظم کی طرف سے نیت کرکے خریدی تھی؟

جواب وضاحت: اعظم کی طرف سے نیت کرکے خریدی تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں زید، اعظم کی طرف سے گاڑی خریدنے کا وکیل تھا اور گاڑی خریدتے ہوئے اس نے اعظم کی نیت کرکے ہی گاڑی خریدی تھی لہذا زید کے خریدتے ہی وہ گاڑی اعظم کی مملوک ہوگئی اور زید نے جو رقم بیعانہ کے طور پر اپنے پاس سے دی وہ اعظم صاحب کے ذمہ قرض بن گئی لہذا زید کا اس گاڑی میں مضاربت کرنا جائز نہیں تھا نیز مضاربت سودا ہونے سے پہلے ہوتی ہے بعد میں نہیں لہذا زید کے گاڑی خریدنے کے بعد اعظم کےمضاربت پر راضی ہو جانے سے بھی یہ معاملہ مضاربت کا نہیں بنتااس لئے زید صرف خریدنے اور بیچنے کی کمیشن کااور جتنی رقم اس نے اپنی طرف سے گاڑی خریدنے کے لئے دی تھی اس کا حقدار ہے اس سے زائد کا نہیں۔

یہ تفصیل تو زید کے اس گاڑی کو خریدنے میں تھی پھر زید نے جب یہ گاڑی کمیشن ایجنٹ کے ذریعے آگے فروخت کی اور کمیشن ایجنٹ نے آگے کے خریدار سے آٹھ لاکھ 25 ہزار طے کیے تو اب کمیشن ایجنٹ کازید کو آٹھ لاکھ میں گاڑی دینے پر اصرار کرنا خیانت تھی لہذا کل رقم یعنی آٹھ لاکھ 25 ہزار زید کا حق تھا اور کمیشن ایجنٹ طے شدہ یا اگر طے نہیں ہوا تھا تو عرف کے مطابق اور اگر عرف بھی نہ ہو تو اجرت مثل کا حقدار تھا اور خود زید بھی اعظم سے اسی تفصیل کے ساتھ کمیشن لینے کا حقدار تھا لہذا مذکورہ صورت میں زید کے ذمے تھا کہ وہ اپنے کمیشن ایجنٹ کو اس کی کمیشن دے کر اس سے پوری رقم وصول کرتا اور پھر اپنی کمیشن رکھ کر باقی پوری رقم اعظم کے حوالے کرتا۔

2۔ اگرچہ کاغذات کی کمی پوری کرنے کی ذمہ داری مالک کی ہوتی ہے لیکن اس کمی کو پورا کروانا کمیشن ایجنٹ کی ذمہ داری ہوتی ہےاور کمیشن ایجنٹ چونکہ اجیر مشترک ہے اس لیے اس کمی کو پورا کروانے میں جو خرچہ ہوا وہ خود زید کے ذمہ ہوگا اور اس کو وہ نہ اعظم سے وصول کر سکتا ہے اور نہ اپنے کمیشن ایجنٹ سے وصول کرسکتا ہےلیکن چونکہ زید کے کمیشن ایجنٹ نے پہلے ہی پورے پیسے نہیں دئیے تھے، اس لیے زید نے اپنے کمیشن ایجنٹ سے جو پیسے لیے ہیں وہ اعظم کو دینا بنتے ہیں البتہ اعظم  کے ذمے زید کے کچھ پیسے دینا بنتے ہوں تو زید ان کے بقدر ان میں سے کٹوتی کرسکتا ہے۔ سی این جی سلنڈر آخری خریدار کا حق ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved