• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مضارب کے کھانے کا خرچہ

استفتاء

ہم تین افراد مل کر کاروبار کرنا چاہتے ہیں جس کی تفصیل درج ذیل ہے

ایک شخص لنڈے کا  کام کرتا ہے جو جرسیاں سوتر بنانے میں استعما ل ہوتی ہیں وہ فیکٹریوں میں سیل کرتا ہے لیکن اب موجودہ ملکی حالات کے پیش نظر اس کے پاس پیسے نہیں ہیں تو اس نے ایک شخص سے بات کی کہ تم پیسے لے آؤ ہم مل کر کام کرتے ہیں مگر اس کے پاس بھی پیسے نہیں تھے اس نے اپنے دوست سے بات کر کے قرض مانگا  اور بتایا میں کہ میں اس سے کاروبار کرنا چاہتا ہوں تو اس دوست نے کہا کہ میں قرض دوں گا مگر میرا حصہ بھی کاروبار میں شامل کرو  اب پہلے دونوں شخص اس رقم سے کاروبار کریں گے اور دکان پر وقت دیں گے پہلا شخص مارکیٹ سے مال خرید کر لائے گا اور پھر دونوں کوالٹی کے مطابق جرسیاں الگ کریں گے اور بیچیں گے  اب سوال یہ کہ آپس میں نفع کیسے تقسیم کریں ؟ اور دکان پر جو دونوں شخص بیٹھیں گے ان کا دوپہر کا کھانا اور موبائل کا خرچہ  کاروبار میں سے ہوگا یا انفرادی؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1)  مذکورہ صورت میں رقم دینے والے کی طرف سے وہ رقم اگر قرض ہو (جیسا کہ سوال میں ذکر ہے )تو یہ صورت ناجائز ہے البتہ اگر وہ رقم بطور مضاربت کے دی جائے تو یہ صورت جائز ہے اور مضاربت پر دینے کا مطلب یہ ہے کہ اگر مضارب (کام کرنے والے) کی کوتاہی کے بغیر وہ رقم ضائع ہوگئی تو مضارب (کام کرنے والا )اس کا ذمہ دار نہ ہوگا البتہ مضارب (کام کرنے والے)کی کوتاہی کی صورت میں نقصان کا وہی ذمہ دار ہوگا اور نفع آپس میں فیصد کے حساب سے طے ہوگا  جو باہمی رضامندی سے  کسی بھی فیصدی تناسب سے طے کیا جاسکتا ہے۔مضاربت کی صورت میں  دوپہر کا کھانا اور موبائل  کا خرچہ کاروبار میں سے ہوگا بالخصوص جب شروع میں ان باتوں کو واضح کردیا جائے کیونکہ موجودہ دور میں دوپہر کے کھانے اور موبائل کا خرچہ کاروبار میں سے لینے کا عرف ورواج ہے۔

2) نفع آپس میں باہمی رضامندی سے کسی بھی فیصدی تناسب سے طے کرسکتے ہیں

نوٹ: مذکورہ صورت میں دوسرا اور تیسرا فریق دونوں مضارب ہوں گے

بدائع الصنائع (6/ 105)

أَمَّا الْوُجُوبُ فَلِأَنَّ الرِّبْحَ في بَابِ الْمُضَارَبَةِ يَحْتَمِلُ الْوُجُودَ وَالْعَدَمَ وَالْعَاقِلُ لَا يُسَافِرُ بِمَالِ غَيْرِهِ لِفَائِدَةٍ تَحْتَمِلُ الْوُجُودَ وَالْعَدَمَ مع تَعْجِيلِ النَّفَقَةِ من مَالِ نَفْسِهِ فَلَوْ لم تُجْعَلْ نَفَقَتُهُ من مَالِ الْمُضَارَبَةِ لَامْتَنَعَ الناس من قَبُولِ الْمُضَارَبَاتِ مع مِسَاسِ الْحَاجَةِ إلَيْهَا فَكَانَ إقْدَامُهُمَا على هذا الْعَقْدِ وَالْحَالُ ما وَصَفْنَا إذْنًا من رَبِّ الْمَالِ لِلْمُضَارِبِ بِالْإِنْفَاقِ من مَالِ الْمُضَارَبَةِ فَكَانَ مَأْذُونًا في الْإِنْفَاقِ دَلَالَةً فَصَارَ كما لو أَذِنَ له بِهِ نَصًّا وَلِأَنَّهُ يُسَافِرُ لِأَجْلِ الْمَالِ لا على سَبِيلِ التَّبَرُّعِ وَلَا بِبَدَلٍ وَاجِبٍ له لَا مَحَالَةَ فَتَكُونُ نَفَقَتُهُ في الْمَالِ بِخِلَافِ الْمُبْضِعِ لَا يُسَافِرُ بِمَالِ الْغَيْرِ على وَجْهِ التَّبَرُّعِ وَبِخِلَافِ الْأَجِيرِ لِأَنَّهُ يَعْمَلُ بِبَدَلٍ لَازِمٍ في ذِمَّةِ الْمُسْتَأْجِرِ لَا مَحَالَة فَلَا يَسْتَحِقُّ النَّفَقَةَ  وَهَكَذَا رَوَى ابن سِمَاعَةَ عن مُحَمَّدٍ في الشَّرِيكِ إذَا سَافَرَ بِالْمَالِ أَنَّهُ يُنْفِقُ من الْمَالِ كَالْمُضَارِبِ  وَأَمَّا شَرْطُ الْوُجُوبِ فَخُرُوجُ الْمُضَارِبِ بِالْمَالِ من الْمِصْرِ الذي أَخَذَ الْمَالَ منه مُضَارَبَةً سَوَاءٌ كان الْمِصْرُ مِصْرَهُ أو لم يَكُنْ فما دَامَ يَعْمَلُ بِهِ في ذلك الْمِصْرِ فإن نَفَقَتَهُ في مَالِ نَفْسِهِ لَا في مَالِ الْمُضَارَبَةِ وَإِنْ أَنْفَقَ شيئا منه ضَمِنَ لِأَنَّ دَلَالَةَ الْإِذْنِ لَا تَثْبُتُ في الْمِصْرِ

مغنی (44/5)

واذا اشترط المضارب نفقة نفسه صح سواء کان فی الحضر او السفر

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved