• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مدرس کو مدرسہ کی رقم سے قرض دینا

استفتاء

میرا سوال یہ ہے کہ کیا مہتمم مدرس کو مدرسہ کی رقم سے قرضہ دے سکتا ہے  ؟ حوالہ جات کے ساتھ راہنمائی فرمائیں ۔

وضاحت مطلوب :  قرض کتنا ہے ؟ اور واپسی  کا نظم کیا ہوگا ؟

جواب وضاحت : عام طور پر مدرس کو بیس یا تیس ہزار کی ضرورت پڑ جاتی ہے ۔  لیکن اس  کی ادائیگی یقینی ہے کیونکہ مدرسین عام طور پر امانت دار ہوتے ہیں الا ماشاءاللہ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر مدرسہ کے پاس ضرورت سے زائد فنڈ ہو  تو مہتمم  مدرس کو اس رقم سے قرض دے سکتا ہے بشرطیکہ قرض کی واپسی پر اطمینان ہو اور بہتر یہ ہے کہ اس پر کسی  کو ضامن بھی بنالیا جائے۔

فتاوی شامی  (5/ 417) میں ہے :

«(قوله: مال الوقف) ذكره في البحر عن جامع الفصولين لكن فيه أيضا عن العدة ‌يسع ‌للمتولي إقراض ما فضل من غلة الوقف لو أحرز اهـ ومقتضاه أنه لا يختص بالقاضي مع أنه صرح في البحر عن الخزانة أن المتولي يضمن إلا أن يقال: إنه حيث لم يكن الإقراض أحرز.»

البحر الرائق (5/ 259) میں ہے :

«‌طالب القيم أهل المحلة أن يقرض من مال المسجد للإمام فأبى فأمره القاضي به فأقرضه ثم مات الإمام مفلسا لا يضمن القيم. اهـ.مع أن القيم ليس له إقراض مال المسجد قال في جامع الفصولين ليس ‌للمتولي إيداع مال الوقف والمسجد إلا ممن في عياله ولا إقراضه فلو أقرضه ضمن وكذا المستقرض وذكر أن القيم لو أقرض مال المسجد ليأخذه عند الحاجة وهو أحرز من إمساكه فلا بأس به وفي العدة يسع للمتولي إقراض ما فضل من غلة الوقف لو أحرز»

کفایت المفتی(7/209)میں ہے:

کیا متولی مسجد خادم و امام کو مسجد کی آمدنی سے قرضہ دے سکتا ہے؟

سوال: خادمان مسجد مثلاً مؤذن و امام کو   بوقت ضرورت متولیان مسجد ، مسجد کے وقف مال سے قرض حسنہ دے سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب: متولی مسجد کو اختیارہے کہ وہ مسجد کے خادموں کو ان کی ضرورت رفع کرنے کے لئے مسجد کے فنڈ سے روپیہ قرض دے دے لیکن یہ شرط ہے کہ قرض کی وصولیابی کی طرف سے اطمینان ہو  ضائع ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔              

یسع للمتولی اقراض مافضل من غلة الوقف لو احرز … للمتولی اقراض مال المسجد بامرالقاضی (ردالمحتار کتاب القضا ء مطلب للقاضی اقراض مال الیتیم وغیره ج : 5 ، 417۔ سعید)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved