- فتوی نمبر: 28-203
- تاریخ: 30 مئی 2023
استفتاء
مسئلہ یہ ہے کہ ایک دوست مقطوع الیدین ہے اور ڈاکٹر نے اس کو سردی کے موسم میں فالج اور گوزن بیماری کی وجہ سے نہانا منع کیا ہے تو اب یہ دوست کیا کرے گا؟ شادی شدہ اور غسل کی تو ضرورت بار بار پیش آتی ہے تو اس صورت میں تیمم کون کروائے گا اور کیسے کروائے گا؟ اس کی بیوی بھی ہے۔
وضاحت مطلوب ہے: ہاتھ کہاں سے کٹے ہیں؟
جواب وضاحت: دونوں ہاتھ مرفقین سے اوپر کٹے ہوئے ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں جب تک مذکورہ آدمی غسل کرنے پر قادر نہ ہو غسل کے لیے تیمم کرے گا۔
مذکورہ صورت میں چونکہ ہاتھ کہنیوں سے اوپر سے کٹے ہوئے ہیں اس لیے تیمم میں ہاتھوں کا مسح ساقط ہے لیکن اس صورت میں چہرے کا مسح کرنا ضروری ہے، لہذا اگر کوئی دوسرا (بیوی، بیٹے بھائی وغیرہ) موجود ہوں تو وہ ان کو چہرے کا مسح کرائیں، اگر کوئی موجود نہ ہو تو خود دیوار وغیرہ پر چہرے کو رگڑ کر چہرے کا مسح کرے اگر اس کی بھی قدرت نہ ہو تو ویسے ہی نماز پڑھ لے۔
الأصل المعروف بالمبسوط للشيبانی (1/ 122- 123 ) میں ہے:
قال في المبسوط : قلت أرأيت رجلا مقطوع اليدين من المرفقين فأراد أن يتيمم هل يمسح على وجهه ويمسح على موضع القطع قال نعم قلت فإن مسح وجهه وترك موضع القطع قال لا يجزيه قلت فإن صلى هكذا أياما قال عليه أن يمسح موضع القطع ويستقبل الصلاة قلت فإن كان القطع في اليدين من المنكب قال عليه أن يمسح وجهه وليس عليه أن يمسح موضع القطع قلت وكذلك لو كان القطع من فوق المرفق دون المنكب قال نعم قلت فإن كان القطع من المفصل قال عليه أن يمسح وجهه وذراعيه قلت وكذلك لو كان دون المرفق قال نعم قلت فإن لم يفعل وصلى هكذا أياما قال عليه أن يمسح ذلك ويعيد الصلوات كلها .
فتاویٰ عالمگیری(1/ 26)میں ہے:
مقطوع اليدين من الرسغ يمسح ذراعيه ومقطوع الذراعين يمسح موضع القطع، وإن كان القطع فوق المرفق لا يجب المسح. كذا في محيط السرخسي. ولو شلت يداه يمسح يده على الأرض ووجهه على الحائط ويجزيه ولا يدع الصلاة. هكذا في الذخيرة في الفصل الخامس قبيل فصل التيمم۔
ردالمحتار (2/692)میں ہے:
ولو قطعت يداه ورجلاه من المرفق والكعب وبوجهه جراحة صلى بغير طهارة ولا تيمم، ولا يعيد هو الاصح
(قوله وبوجهه جراحة) لم يذكره في الكافي والفتح والبحر والنهر فكان غير قيد كما يأتي. (قوله ولا تيمم) عطف خاص على عام. (قوله وقيل لا صلاة عليه) اختاره صاحب الدرر في متنه وشرحه فقال قطعت يداه ورجلاه من المرفق والكعب لا صلاة عليه كذا في الكافي، وقيل إن وجد من يوضئه يأمره ليغسل وجهه وموضع القطع ويمسح رأسه وإلا وضع وجهه ورأسه في الماء أو يمسح وجهه وموضع القطع على جدار فيصلي كذا في التتارخانية اهـ وقوله: أو يمسح وجهه إلخ أي إن لم يقدر على الغسل بالماء بناء على أنه لا جراحة فيه، وبه علم أن قول المصنف بوجهه جراحة ليس بقيد لأن المدار على العجز عن الطهارة ولذا استشهد قاضي خان على ما اختاره من سقوط الصلاة عن المريض العاجز عن الإيماء بالرأس وأن مجرد العقل لا يكفي لتوجه الخطاب بما ذكره محمد فيمن قطعت يداه من المرفقين ورجلاه من الساقين لا صلاة عليه (قوله وقيل إلخ) هو القول الثاني المحكي في عبارة الدرر
فتاویٰ محمودیہ (5/40)میں ہے:
مقطوع الیدین کیسے استنجاء ووضوکرے؟
سوال:-ایک شخص جس کے دونوں ہاتھ کہنیوں تک کٹے ہوئے ہیں، تووہ پیشاب، پاخانہ کرکے کس طرح پاکی حاصل کریگا؟ کیادوسرے کویہ حق ہوگاکہ وہ اس کے مخرج کواپنے ہاتھ سے پاک کرے؟ اگرنماز کاوقت ختم ہورہاہے تووہ اس صورت میں کیاکرے گا؟
الجواب حامداً ومصلیاً: اگروہ پانی استعمال نہیں کرسکتاتوجوازِ نماز کیلئے دوسرے سے مخرج دھلوانے پرشرعاً مجبورومکلّف نہیں، بغیرپانی استعمال کئے ہوئے اسکی نماز درست ہوگئی۔ ایسی مجبوری کی حالت میں وضوکی جگہ صرف چہرہ کو کسی جگہ دیوار وغیرہ پرکسی طرح مسح کرے کہ چہرہ کاتیمم ہوجائے، اس کی بھی قدرت نہ ہوتوویسے ہی نماز پڑھ لے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved