- فتوی نمبر: 33-295
- تاریخ: 07 جولائی 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وقف کا بیان > مساجد کے احکام
استفتاء
مفتیان کرام میں ایک مسئلے کے سلسلے میں شرعی رہنمائی چاہتا ہوں۔میں ایک دس مرلہ گھر کی نچلی منزل میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ رہتا ہوں۔اوپر والی منزل میں میرے مرحوم بھائی کے بیٹے رہتے ہیں۔میری کوئی اولاد نہیں ہے۔اس گھرکا آدھا حصہ رجسٹری میں میرے نام پر ہے اور آدھا حصہ میرے مرحوم بھائی کے نام پر ہے۔میں یہ چاہتا ہوں کہ اس گھر میں سے اپنے حصے کو کسی کارخیر پر وقف کر جاؤں کہ میرے مرنے کے بعد وہ میرے لیے صدقہ جاریہ کا ذریعہ بنے۔
یہ ہمارا گھر مشترک ہے اور اس میں میرا حصہ الگ سے متعین نہیں ہے۔اور فی الحال اپنے حصے کو الگ کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی کیونکہ اس میں رہائش پذیر میرے بھتیجے گھر میں سے میرے حصے کو خریدنے پر رضامند نہیں ہیں۔اور نہ فی الحال اس گھر کو بیچ کر حصے الگ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ اس سلسلے میں مجھے کچھ مسائل پوچھنے ہیں:
1۔کیا اس صورت میں میرے لیے اپنے حصہ کو وقف کرنا جائز ہوگا؟
2۔دوسرا یہ کہ مجھے اس بات کا بھی خیال ہے کہ اگر میں نے صرف نیچے کی منزل کو جوکہ میرے استعمال میں ہے وقف کردیا تو اس کے نتیجہ میں باقی گھر کی قیمت گر جائے گی جس کی وجہ سے بھتیجوں کو نقصان ہوگا۔لہذا کیا ایسی صورت ہو سکتی ہے کہ میں ابھی اپنے حصے کو وقف کر جاؤں اور جب کبھی یہ گھر فروخت ہو تو میرے حصے سمیت یہ پورا گھر بک جائے اور جس کسی کو میں وقف کا متولی بناؤں وہ میرے حصے کی رقم کو میرے بتائے ہوئے کارخیر میں وقف کر دے؟
3۔ایک تیسری صورت یہ ذہن میں آتی ہے کہ میں اپنے حصے کو اس طرح وقف کر دوں کہ میری وفات کے بعد میرے حصے کا گھر کرایہ پر دے دیا جائے اور اس کا کرایہ میرے بتائے ہوئے کارخیر پر خرچ کیا جائے ۔پھر جب گھر فروخت ہونے کی نوبت آئے تو پورا گھر فروخت کر کے میرے وقف شدہ حصے کی رقم کو میرا متولی میرے بتائے ہوئے مصرف پر خرچ کر دے۔کیا یہ صورت درست ہے؟
4۔بندہ کا ارادہ اس گھر کی قیمت کو کسی مدرسہ میں یا رائے ونڈ مرکز کے فنڈ میں جمع کرواکر وقف کرنے کا ہے تاکہ صدقہ جاریہ بن جائے کیا یہ درست ہے ؟۔
5۔ اگر مذکورہ گھر میں سے اپنا حصہ وقف کرنے کے بعد میری زندگی میں ہی یہ گھر فروخت ہوجائے اور مجھے میرا حصہ مل جائے جس سے میں کوئی جگہ خرید کر وقف کردوں تو کیا میں بھی اس وقف کی گئی جگہ میں رہ سکوں گا ؟
تنقیح:مذکورہ گھر سائل کی تین چوتھائی (75 فیصد)جائیداد کے برابر ہے ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔مذکورہ صورت میں آپ کےلیے گھر میں سے اپنے حصے کو وقف کرنا جائز ہے۔
توجیہ: امام ابو یوسف ؒ کا قول (جو کہ متاخرین فقہاء کے نزدیک مختار اور مفتی بہ ہے) یہ ہے کہ مشترکہ جائیداد جو قابل تقسیم ہو اسے اپنے حصے کے بقدر وقف کرنا درست ہے ۔
2۔اس کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ وقف کرتے وقت آپ یہ شرط لگا دیں کہ جب تک میں اور میری اہلیہ زندہ ہیں ہم گھر کے اس وقف شدہ حصے سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے پھر ہمارے مرنے کے بعد جب گھر فروخت ہو تو وقف کا متولی اسے فروخت کرکے ملنے والی رقم کو ہمارے بتائے ہوئے مصرف پر لگادے۔
توجیہ : وقف شدہ جائیداد کو بیچنا جائز نہیں ہے لیکن اگر واقف وقف کرتے وقت یہ شرط لگادے کہ اس کو بیچ کر اس کے پیسے سے کوئی اور زمین خرید ی جائے اور پھر وہ زمین وقف کردی جائے تو یہ جائز ہے ۔
3۔یہ صورت بھی جائز ہے بشرطیکہ وقف کرتے وقت ان باتوں کو زبانی اور بہتر یہ ہے کہ تحریری طور پر وقف نامہ میں ذکر کردیا جائے۔
4۔ وقف کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وقف کی گئی چیز کی ذات کو باقی رکھ کر اس سے فائدہ اٹھایا جائے یا اس کے بدل کو باقی رکھ کر فائدہ اٹھایا جائے۔ اس لیے کسی مدرسہ میں یا رائیونڈ مرکز کے فنڈ میں اگر اس گھر کی قیمت جمع کروائی جائے گی تو وہ رقم خرچ ہو کر ختم ہوجائے گی اور وقف کی مذکورہ شرط فوت ہونے کی وجہ سے وقف باطل ہوجائے گا لہٰذا مذکورہ صورت اختیار کرنا درست نہیں البتہ یہ رقم اگر کسی مدرسہ یا مرکز کی تعمیر میں لگائی جائے تو چونکہ تعمیر کو باقی رکھ کر اس سے فائدہ اٹھانا ممکن ہے اس لیے اس صورت میں وقف درست ہوگا۔
توجیہ :اگر صرف عمارت کو بغیر زمین کے وقف کیا جائے تو اگر چہ عمارت اشیا ءمنقولہ میں سے ہے اور اُصولاً اس کا وقف کرنا درست نہیں لیکن فقہاء کی تصریح کے مطابق اگر منقولی چیز کے وقف کرنے کا عرف ہوجائے تو پھر منقولی چیز کا وقف بھی جائز ہے ، اور ہمارے دور میں خالی تعمیر کے وقف کرنے کا عرف ہوچکا ہے نیز اگر زمین پہلے سےوقف ہو اور رقم کو اسی وقف کی تعمیر پر خرچ کردیا جائے تو یہ بھی بالاتفاق جائز ہے لہٰذا مذکورہ صورت میں مدرسہ یا مرکز کی تعمیر میں رقم لگا دینا درست ہوگا۔
5۔مذکورہ صورت میں اگر وقف کرتے وقت آپ اس دوسری جگہ میں بھی اپنی زندگی تک اسے استعمال کرنے کی شرط لگادیں تو آپ کے لیے اس میں رہائش رکھنا جائز ہوگا ۔
1۔فتاوی ہندیہ (2/365) میں ہے:
وقف المشاع المحتمل للقسمة لايجوز عند محمد رحمه الله تعالى و به اخذ مشايخ بخارى وعليه الفتوى كذا فى السراجية والمتاخرون افتوا بقول ابي يوسف رحمه الله تعالى انه يجوز وهو المختار كذا في خزانة المفتين.
فتاوی محمودیہ (23/35) میں ہے:
سوال :کیا یہ جائز ہے کہ کسی جائیداد غیر منقولہ کے کچھ حصہ کی علیٰ سبیل المشاع آمدنی کووقف کیا جائے اور وہ جائیداد غیر متعین ہو۔
الجواب حامداً ومصلیاً:جو مشاع قابلِ قسمت ہو اس کا وقف امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک درست نہیں۔ امام ابویوسفؒ کے نزدیک درست ہے، متاخرین نے اسی قول پرفتویٰ دیا ہے، یہی مختار ہے۔ ویسے بھی مسائل وقف میں عموماً امام ابویوسف رحمہ اللہ کے قول پرفتویٰ ہوتا ہے، اور جس مسئلہ میں وقف کا نفع ہو اس میں عموماً فتویٰ کے لئے اس صورت کو اختیار کیا جاتا ہے، جیسا کہ شرح عقود رسم المفتی میں مذکور ہے:
الشیوع فیما لا یحتمل القسمة لا یمنع صحة الوقف بلا خلاف الایریٰ انه لووقف نصف الحمام یجوز وان کان مشاعاً کذا فی الظهيرية، وقف المشاع المحتملة للقسمة لایجوز عند محمد رحمه الله وعليه الفتویٰ کذا فی السراجيه والمتاخرون افتوا بقول ابی یوسف انه یجوز وهو المختار کذا فی خزانة المفتیین.
فتاوی دارالعلوم دیوبند (13/118) میں ہے:
سوال: ایک قطعہ زمین جس میں چار پانچ نفر شریک ہیں، اور قبل تقسیم ایک شخص نے اپنے حصے کو وقف کر دیا ، لہذا بہ مذہب حنفیہ بہ قول مفتی بہ یہ وقف درست ہے یا نہیں ؟ اگر درست نہیں تو اس کو فروخت کرنا درست ہے یا نہیں ؟
الجواب: بہ مذہب حنفیہ بہ قول مفتی بہ وقف مشاع صحیح ہے، پس اس شخص کے حصے کو جس نے وقف کیا ہے علیحدہ کر دیا جاوے، اور اس حصہ موقوفہ کی بیع و شراء جائز نہیں ہے۔ لقول الفقهاء: الْوَقْف لا يملك ولا يُملك (در مختار وغيره ) قال في الشامي والخلاف في وقف المشاع مبني على اشتراط التسليم وعدمه لأن القسمة من تمامه فأبو يوسف أجازه لأنه لم يشترط التسليم، ومحمد لم يجزه لاشتراط التسليم الخ وفى الدر المختار : فيقسم المشاع وبه آفتی قارئ الهداية وغيره وفي الدر المختار أيضًا: واختلف الترجيح والأخذ بقول الثاني أحوط وأسهل بحروفي الدرر وصدر الشريعة وبه يفتى، وفي الشامي : قوله واختلف الترجيح مع التصريح في كل منهما بان الفتوى عليه،لكن في الفتح:أن قول ابي يوسف أوجه عند المحققين (شامي 3/366 كتاب الوقف)
2۔ فتاوی ہندیہ (2/398)میں ہے:
“في الذخيرة إذا وقف أرضاً أو شيئاً آخر وشرط الكل لنفسه أو شرط البعض لنفسه ما دام حياً وبعده للفقراء قال أبو يوسف رحمه الله تعالى: الوقف صحيح ومشايخ بلخ رحمهم الله تعالى أخذوا بقول أبي يوسف رحمه الله تعالى وعليه الفتوى ترغيباً للناس في الوقف وهكذا في الصغرى والنصاب، كذا في المضمرات.”
احکام الاوقاف للخصاف (ص:23) میں ہے:
مطلب شرط للناظر الاستبدال ]
قلت: فما تقول إن كان اشترط في الوقف أن لوالي هذه الصدقة أن يبيع هذه الضيعة بعد وفاة فلان وأن يستبدل بثمنها ما يكون وقفاً مكانها ؟ قال : فهذا جائز على ما اشترطه وليس للقيم أن يفعل ذلك في حياة الواقف وإنما ذلك له بعد موت الواقف قلت : فهل للواقف أن يفعل ذلك وأن يستبدل به؟ قال : نعم ذلك للواقف خاصة أن يفعله في حياته وليس للوالي أن يفعل ذلك إلا بعد موت الواقف .
الدر المختار مع رد المحتار (4/ 385) میں ہے :
(و) جاز (شرط الاستبدال به )أرضا أخرى حينئذ (أو) شرط (بيعه ويشتري بثمنه أرضا أخرى إذا شاء فإذا فعل صارت الثانية كالأولى في شرائطها
الدر المختار مع رد المحتار (4/ 353) میں ہے :
«ولا يقسم) بل يتهايئون (إلا عندهما)» فيقسم المشاع وبه أفتى قارئ الهداية وغيره (إذا كانت) القسمة (بين الواقف و) شريكه (المالك) أو الواقف الآخر أو ناظره إن اختلفت جهة وقفهما قارئ الهداية .ولو وقف نصف عقار كله له فالقاضي يقسمه مع الواقف صدر الشريعة وابن الكمال، وبعد موته لورثته ذلك فيفرز القاضي الوقف من الملك، ولهم بيعه به أفتى قارئ الهداية واعتمده في المنظومة المحبية . (قوله: به أفتى قارئ الهداية) حيث قال نعم تجوز القسمة ويفرز الوقف من الملك، ويحكم بصحتها ويجوز للورثة بيع ما صار إليهم بالقسمة، وإذا قسم بينهم من هو عالم بالقسمة إن شاء عين جهة الوقف وجهة الملك بقوله والأولى أن يقرع بين الجزأين نفيا للتهمة عن نفسه. اهـ.
فتاوی دارالعلوم دیوبند (13/170) میں ہے:
سوال : ہندہ نے حصہ مکان اس شرط کے ساتھ مسجد میں وقف کیا کہ متولی کو یہ اختیار ہوگا کہ حصہ موقوفہ کو فروخت کر کے تعمیر مسجد میں صرف کر دے، حصہ موقوفہ نہایت قلیل، قابل منفعت نہیں ہے؛ آیا حسب شرائط واقفہ متولی اس کو فروخت کر کے زرشمن مسجد مذکور میں صرف کر دے تو جائز ہے یا نہیں ؟
الجواب: اس حصہ موقوفہ کو حسب شرط واقفہ بیچ کر کے اس کی قیمت تعمیر و مرمت مسجد میں صرف کرنا درست ہے، لأن شرط الواقف كنص الشارع
3۔فتاوی شامی(4/366) میں ہے:
شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به ….
4۔فتاوی عالمگیری (2/ 362)میں ہے :
«وأما وقف ما لا ينتفع به إلا بالإتلاف كالذهب والفضة والمأكول والمشروب فغير جائز في قول عامة الفقهاء،»
فتاوی شامی (8/596) میں ہے :
( بنى على أرض ثم وقف البناء) قصدا (بدونها أن الأرض مملوكة لا يصح وقيل صح وعليه الفتوى) . سئل قارئ الهداية عن وقف البناء والغراس بلا أرض؟ فأجاب: الفتوى على صحته ذلك ورجحه شارح الوهبانية وأقره المصنف معللا بأنه منقول فيه تعامل فيتعين به الإفتاء.
و في الشامية قلت: لا يخفى عليك أن المفتى به الذي عليه المتون جواز وقف المنقول المتعارف وحيث صار وقف البناء متعارفا كان جوازه موافقا للمنقول، ولم يخالف نصوص المذهب على عدم جوازه لأنها مبنية على أنه لم يكن متعارفا ……… وأما إذا وقفه على الجهة التي كانت البقعة وقفا عليها جاز اتفاقا تبعا للبقعة»
احکام الاوقاف للخصاف (ص:30) میں ہے:
مطلب الوقف على بناء المساجد
قلت فان قال موقوفه على بناء المساجد او على مرمه المساجد او قال على بناء الحصون في الصغور او قال على مرمتها او قال على عمل سقايات في المواضع التي يحتاج اليها قال هذا كله جائز وهي وقف على ما سمى من ذلك
5۔فتاوی شامی(4/366) میں ہے:
شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به ….
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved