• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مطلق طلاق کا کہہ کر بغیر پڑھے دستخط کرنا

استفتاء

شوہر کا بیان

میں ***رقم کے لین دین کے معاملے میں بُری طرح الجھ گیا تھا، ایک شخص*** نے لین دین کے سلسلے میں میرے گھر میں گھس کر بیوی بچوں پر تشدد کیا اور یہ واقعہ تقریباً تین دفعہ ہوا، جس کی وجہ سے میرے بچے ہر وقت خوف و حراس میں رہتے تھے۔ ایک دفعہ ہم نے تنگ آ کر اس کے خلاف علامہ اقبال ٹاؤن تھانے میں درخواست دی اور اس درخواست کی وجہ سے وہ ہمارا دشمن بن گیا، اور اس نے میرے اوپر 5 عدد چیک کی مختلف پانچ FIR کروا کر مجھے اشتہاری بنا دیا، میں پولیس کے خوف سے گھر نہیں آتا تھا اور یہ شخص میری بیوی کو فون پر دھمکیاں دیتا تھا کہ میں  تمہارے شوہر کو جیل میں بھیج کر تمہیں بھی ذلیل کروں گا اور تم سے پیسے بھی وصول کروں گا۔

لہذا پولیس مجھے بار بار فون کر کے بلا رہی تھی اور میں سمجھ گیا تھا کہ یہ شخص اب انتقام پر اتر آیا ہے، تو میں فوری طور پر وکیل کے پاس گیا اور اسے یہی کہا کہ مجھے ایسا کاغذ بنا دیں جس سے اگر میں جیل چلا جاؤں تو میری بیوی اور بچے محفوظ رہیں۔ تو وکیل نے یہ کاغذ بنا کر دیا اورمیں نے اس پر سائن کر دیے اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس میں کیا ہے، جس دن کاغذ بنا تھا میں اسی دن گرفتار ہو گیا تھا، اور وہ شخص میرے گھر تک بھی انتقام لینے آیا مگر میری بیوی اس کاغذ کے سہارے اپنے بھائیوں کے پاس چلی گئی، جس کی وجہ سے اس شخص سے جان اور عزت بچی۔

پھر تقریباً 19 دن بعد میں ضمانت کروا کر جیل سے واپس آ گیا اور اب میں اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ برائے مہربانی  مفتی صاحب آپ ہماری رہنمائی فرما دیں۔

نوٹ: مفتی صاحب اب بھی اس شخص کا کبھی کبھی فون آتا ہے اور مجھے دھمکی دیتا ہے کہ اگر آپ اپنی بیوی کو دوبارہ لے آئے تو اچھا نہیں ہو گا۔ تمہاری بیوی میری دشمن ہے، اس نے میرے خلاف تھانے میں درخواست دی تھی۔ مفتی صاحب اب میں نے بندوبست کر لیا ہے اور اپنے بیوی بچوں کو محفوظ جگہ پر رکھا ہوا ہے۔

اور میری بیوی کا بیان بھی آپ کے پاس آ گیا ہے۔ میں اس سے متفق ہوں۔

بیوی کا بیان

میرا طلاق کا مسئلہ ہے جو بہت نازک ہے اور الجھ گیا ہے، میرے شوہر کا کافی لوگوں کے ساتھ کاروباری لین دین تھا، کافی لوگوں کا قرضہ دینا تھا، جو کہ چیک کی صورت میں تھا، میرے شوہر کے کاروباری حالات بہت خراب تھے جس کی وجہ سے وہ رقم ادا نہیں کر سکتے تھے۔

ان قرضداروں میں سے ایک میرے گھر میں زبردستی داخل ہو گیا اور بدتمیزی کرنے لگا میرے ساتھ اور کہنے لگا میں نے یہ رقم تجھ سے لین ہے اور دست درازی کرنے لگا، میں نے بڑی مشکل سے بیڈ روم میں جا کر کنڈی لگا کر اپنی جان بچائی، لیکن وہ گھر سے نہیں گیا، اس وجہ سے میں 15 پر  کال کر دی، پولیس گھر پر آئی لیکن وہ بھاگ گیا، اس دوران میرے شوہر شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔

وہ لڑکا پیسے کے لین دین کی وجہ سے میری عزت تک آ گیا تھا، اس کے پاس میرے شوہر کے چیک تھے اور اس نے میرے شوہر پر دو تین ایف آئی آر کٹوا دی تھیں۔ معاملہ پولیس تک چلا گیا اور بات میری عزت پر آ گئی تھی، میرے شوہر کے پاس پیسے نہیں تھے اسے دینے کے لیے، جس کی وجہ سے وہ لڑکا ہر روز میرے گھر کے باہر کھڑا رہتا تھا اور میں اسے دروازہ نہیں کھولتی تھی۔ حقیقت میں وہ میرے پیچھے پڑ گیا تھا، اور کہتا تھا کہ اگر تم نے مجھے گھر میں نہ آنے دیا تو میں تمہیں اور تمہارے شوہر  کو تھانے میں بند کروا دوں گا۔ ہر روز میرے شوہر کی تلاش میں پولیس گھر پر آتی تھی۔ اس مجبوری کے تحت میرے شوہر نے مجھے قانونی کاروائی سے بچانے کے لیے اشٹام پیپر بنوایا۔ جس میں انہوں نے مجھے اپنی زوجیت سے الگ کر دیا، تاکہ وہ لڑکا میرے خلاف کسی بھی قسم کی قانونی کاروائی نہ کر سکے، اور میری عزت محفوظ رہے۔ یہ اشٹام پیپر میرے شوہر نے میرے ہاتھ میں نہیں دیا، گھر میں ٹی وی پر رکھ کر چلے گئے اور مجھے پڑھ کر بھی نہیں سنایا اور کہا کہ میں تمہیں طلاق نہیں دے سکتا اور چلے گئے۔

میں حلفیہ اقرار کرتی ہوں کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق کے الفاظ کبھی نہیں بولے۔ اور 12 سال کے شادی شدہ زندگی میں انہوں نے مجھے کبھی طلاق کا لفظ نہیں بولا۔

اس کے بعد پولیس نے میرے شوہر کو گرفتار کر لیا، دس پندرہ دن کے بعد وہ جیل سے باہر آئے، آتے ہی مجھے فون کیا اور کہا میں نے آپ کو طلاق نہیں دی، یہ کاغذ صرف قانونی کاروائی کے لیے بنوایا تھا، اور یہ بھی کہا کہ اگر مجھے آپ کو طلاق دینی ہوتی تو میں منہ سے دے کر جاتا۔

جناب مفتی صاحب میرے تین بچے ہیں اور شادی کو 12 سال ہو چکے ہیں، میری گذارش ہے میرے اس طلاق کے مسئلے کو زیر غور لایا جائے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر واقعی ایسا ہی ہے تو مذکورہ صورت میں ایک طلاق رجعی واقع ہو گئی ہے۔

توجیہ: طلاق نامہ شوہر نے خود نہیں لکھا بلکہ وکیل سے لکھوایا ہے اور وکیل کو مطلق طلاق کا کہا تھا نہ کہ تین طلاق کا، وکیل نے تین طلاق لکھ دیں اور شوہر نے بغیر پڑھے دستخط کر دیے جبکہ ایسی صورت میں تین طلاقیں واقع ہونے کے لیے ضروری تھا کہ شوہر یہ طلاقنامہ یا تو خود پڑھتا یا وکیل پڑھ کر سنا دیتا۔ ان دونوں باتوں میں سے کوئی بات نہیں ہوئی۔

و لو استكتب من آخر كتاباً بطلاقها و قرأه علی الزوج فأخذه الزوج و ختمه و عنونه و بعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابه. (رد المحتار: 4/ 443)

"ہر چند کہ "لکھو” کا مفعول لفظوں میں مذکور نہیں، لیکن اس درخواست کی منظوری میں اس نے یہ کہا ہے اس میں اس کی تصریح ہے کہ طلاقنامہ لکھو جواب اس پر مبنی ہے اور جواب میں جو تین کا وقوع لکھا ہے یہ اس وقت ہے کہ اس لکھے ہوئے کو وہ جائز رکھے یعنی یا تو اس پر دستخط کر دے ۔۔۔ اور اگر شوہر تین طلاق کو جائز نہ رکھے تو طلاق بلا عدد لکھنے کے لیے کہنے سے صرف ایک طلاق واقع ہو گی اور چونکہ یہ صریح ہے اس لیے رجعی واقع ہو گی۔” (حاشیہ امداد الفتاویٰ: 2/ 385 )

دوسری جگہ ہے:

"اگر مضمون کی اطلاع پر دستخط کیے ہیں تو معتبر ہیں ورنہ معتبر نہیں، قواعد سے یہی حکم معلوم ہوتا ہے۔” (2/ 386)

قال لها طلقي نفسك و لم ينو أو نوی واحدة (فطلقت) وقعت رجعية. قوله: (فطلقت) أي واحدة أو ثنتين أو ثلاثاً و كل مع عدم النية أصلاً أو مع نية الواحدة أو الثنتين في الحرة فهي تسعة (صور) والواقع فيها طلقة رجعية. (رد المحتار: 4/ 463) فقط و الله تعالی أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved