• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

نابالغ كی تراویح میں امامت کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

جناب مفتی صاحب  ! عبد المغنی  حافظ ہے   اس کی عمر ساڑھے تیرہ سال ہے بلوغت کے آثار بھی  ہیں  اور  اس کا والد اس کو بالغ ہی سمجھ رہا تھا  جبکہ احتلام 15 شوال کو ہوا ہے  اب بتائیں کہ اس کے پیچھے تراویح پڑھنا حرام ہے یا مکروہ یا ناجائز  گناہ کبیرہ ہے ؟

وضاحت مطلوب ہےکہ: بلوغت کے آثار کی وضاحت  فرمائیں؟

جواب وضاحت: مثلا عورتوں میں دل چسپی  لینا  اور موبائل میں ڈرمادیکھنا  اور چہرے پر ہلکی مونچھ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

راجح قول کے مطابق نابالغ   کو تراویح میں امام  بنانا درست نہیں  تا ہم  ایک مرجوح قول جواز کا بھی ہے  لہذا جو تراویح  اس کےپیچھےپڑھ چکے ہیں وہ مرجوح قول کے مطابق ہوگئی ہیں ۔

فی الدر المختار 2/387(رشیدیه)

ولا يصح اقتداء رجل بامرأة وخنثي وصبي مطلقا ولو في جنازة ونفل علي الاصح ۔

قال ابن عابدين:قوله (ونفل علي الاصح) قال في الهدايه :وفي التراويح والسنن المطلقة جوزه مشائخ بلخ ، ولم يجوزه مشائخنا ، ومنهم من حقق الخلاف في النفل المطلقة بين ابي يوسف ومحمد والمختار انه لا يجوز في الصلوات كلها۔

في المحيط البرهاني 2/263(ادارۃ القرآن المجلس العلمی)

وکان القاضی الامام الأجل أبوعلي النسفي رحمه الله تعالي يفتي  بالجواز ؛ وكان الشيخ الأمام الأجل شمس الأئمة السرخسي رحمه الله تعالي يفتي بعدم الجواز ؛ وكان يقول : الأمام ضامن ، والصبي لا يصلح للضمان ، ولأن صلاة القوم صلاة حقيقة ، وصلاة الصبي ليست بحقيقة ، فلا يجوز بناء الحقيقي علي غير الحقيقي ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved