• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

نائی کی کمائی کا حکم

استفتاء

حضرت نائی کی کمائی کے متعلق کچھ معلومات چاہئیں کہ نائی داڑھی بھی مونڈتا ہے تو  کیا اس کی کمائی  حلال ہے یا حرام ؟

وضاحت مطلوب؛ سائل کا سوال سے کیا تعلق ہے؟

جواب:اپنی کٹنگ والی دکان بنانی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

نائی یعنی بال کاٹنے والے کی کمائی کے حلال یا حرام ہونے میں تفصیل یہ ہے کہ جو کام حرام ہیں جیسے داڑھی مونڈنا  یا  خوبصورتی کے لیے فیشن کے مطابق بھنویں بنانا ان کاموں کی اجرت بھی حرام ہے اور جو کام جائز ہیں جیسے سر کے بال کاٹنا یا ایک مشت سے زائد داڑھی کو شرعاً درست کرنا یا عیب دار بھنوؤں کو درست کرنا  ان کاموں کی اجرت بھی حلال ہے ،البتہ سر کے بال خلاف شرع    (سر کے کچھ حصے کے بال چھوٹے  اور کچھ بڑے ) کاٹناممنوع ہے  اسی طرح خلاف شرع بال کاٹنے کی اجرت لینا  بھی مکروہ (تحریمی )ہے کیونکہ یہ اعانت علی المعصیت ہے۔

مجمع الانھر) 2 / 530(میں ہے :

امره انسان ان يتخذ له خفا على زي  المجوس  او الفسقة او خياطا امره انسان ان يخيط له ثوبا علي زي الفساق  يكره له ان يفعل ذالك .

درالمختار (9/559) میں ہے:

فاذا ثبت كراهية لبسها للتختم ثبت كراهية بيعها و صيغها لما فيه من الاعانة على ما لا يجوز ، وكل ما ادى الى ما لا يجوز لا يجوز.

فتاوی محمودیہ (17/123) میں ہے :

سوال : حجام کی آمدنی  کا کیا حکم ہے جو مسلمانوں کی داڑھی مونڈنے اور انگریزی بال بنانے سے حاصل ہوتی ہے؟

جواب :یہ کام بھی گناہ ہے  اور اسکی کی آمدنی بھی مکروہ ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved