• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ناجائز حمل کو ساقط کرنے کا حکم

استفتاء

میں ایک لیڈی ڈاکٹر ہوں۔ ہمارے پاس کچھ خواتین آتی ہیں اور اسقاط حمل کرانا چاہتی ہیں۔ کچھ خواتین خود بتا دیتی ہیں کہ یہ حمل ناجائز ہے اور کچھ کے بارے میں قرائن سے پتہ چل جاتا ہے کہ یہ ناجائز حمل ہے۔ کیا ناجائز حمل کو ساقط کرنا جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جان پڑنے سے پہلے پہلے یعنی حمل کو 120 دن پورے ہونے سے پہلے اسقاط کرا سکتے ہیں اس کے بعد نہیں۔ لیکن اس زمانے میں زنا خوب پھیلنے لگا ہے اور اسقاط حمل زنا کے پھیلنے کے اسباب میں سے ہے اس لیے یہ ہر ایرے غیرے کے حمل کو ساقط نہ کریں۔ ہاں جس کے بارے میں معلوم ہو کہ لڑکی نیک اور پاکدامن تھی پھر کسی نے اس سے زبردستی زنا کیا ہے اس کا ساقط کر سکتے ہیں۔

في رد المحتار (9/ 617):

و في الذخيرة لو أرادت إلقاء الماء بعد وصوله إلى الرحم قالوا: إن مضت مدة ينفخ فيه الروح لا يباح لها، و قبله اختلف المشائخ فيه و النفخ مقدر بمائة و عشرين يوماً بالحديث.

و في الفتاوى الهندية (5/ 356):

العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه كالشعر و الظفر و نحوهما لا يجوز و إن كان غير مستبين الخلق يجوز و أما في زماننا يجوز على كل حال و عليه الفتوى.

في الطحاوي:

لا يجوز إسقاط الحمل من الزنا لأنه محترم إذ لا جناية منه. (2/ 22) فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved