- فتوی نمبر: 33-55
- تاریخ: 12 اپریل 2025
- عنوانات: عبادات > نماز > نماز جنازہ و میت کے احکام
استفتاء
1۔نماز جنازہ کی نیت کیسے کی جاتی ہے ؟ اگر نیت بالکل نہ کی جائے تو کیا نماز جنازہ ہو سکتا ہے ؟
2۔میت کی چارپائی لوگ لے کے جا رہے ہوں تو چارپائی سے آگے گزر سکتے ہیں ؟
3۔نماز جنازہ والا درود شریف کونسا ہے ؟
4۔قبرستان میں قبروں کے اوپر چلنا ، گزرنا کیسا ہے ؟ جوتے کے ساتھ کیسا ہے اور جوتے کے بغیر کیسا ہے ؟
5۔قبرستان میں کسی قبر پر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگ سکتے ہیں ؟
6۔نماز جنازہ اگر جوتے اتار کر نہ پڑھی جائے بلکہ جوتے کے ساتھ پڑھی جائے تو کیا حکم ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔نماز جنازہ کی نیت کا طریقہ یہ ہے کہ دل میں یہ ارادہ کرلے کہ میں نماز جنازہ پڑھ رہاہوں۔نیز اگر نیت بالکل نہ کی جائے تو نماز جنازہ نہیں ہو سکتا-
2۔جو لوگ جنازے کے ساتھ ہوں انکو جنازے کے پیچھے چلنا مستحب ہے اگرچہ جنازے کے آگے چلنا بھی جائز ہے۔
3۔جو درود ابراہیمی عام نمازوں میں پڑھا جاتا ہے نماز جنازہ میں بھی وہی پڑھنا افضل ہے۔
4۔بغیر مجبوری کے قبروں کے اوپر چلنا، گزرنا جائز نہیں ہے چاہے جوتوں کے ساتھ ہو یا جوتوں کے بغیرہو کیونکہ اس سے میت کی بے حرمتی ہوتی ہے البتہ کوئی مجبوری ہو تو الگ بات ہے ۔
5۔قبر پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا درست ہے البتہ ایسی صورت اختیار نہ کی جائے جس سے قبر والے سے مانگنے کا شبہ ہو۔مثلا قبر کی طرف منہ کر کے ہاتھ اٹھا کر دعا نہ کی جائے۔
6۔ اگر جوتے کا تلا (نیچے کا حصہ )بھی پاک ہو اور جوتے کا اوپر کا حصہ بھی پاک ہو اور زمین بھی پاک ہو تو جوتے پہن کر نماز جنازہ پڑھ سکتے ہیں اور اگر جوتے کا اوپر کا حصہ ناپاک ہو تو جوتے پر پاؤں رکھ کر نماز جنازہ پڑھنا ناجائز ہے۔اور اگر جوتے کے اوپر کا حصہ پاک ہو اور نیچے کا حصہ (جوتے کا تلا) ناپاک ہو تو اس میں دو قول ہیں۔احتیاط نہ پڑھنے میں ہے اور گنجائش پڑھنے کی بھی ہے۔
1۔شامی(2/91) میں ہے:
والنية وهى الارادة لا العلم والمعتبر فيها عمل القلب اللازم للإرادة وهو ان يعلم بداهة اى صلاة يصلى
2۔ہندیہ (1/162) میں ہے:
الأفضل للمشيع للجنازة المشي خلفها ويجوز أمامها
3۔شامی(3/128) میں ہے:
(وهي أربع تكبيرات) ……….(ويصلي على النبي صلى الله عليه وسلم) كما في التشهد (بعد الثانية)
(قوله كما في التشهد) أي المراد الصلاة الإبراهيمية التي يأتي بها المصلي في قعدة التشهد
4۔شامی(2/245) میں ہے:
ويكره الجلوس على القبر ووطؤه
5۔ مرقاۃ المفاتیح (4/164) میں ہے :
“عن ابن مسعود قال والله لكأني أرى رسول الله في غزوة تبوك وهو في قبر عبد الله ذي البجادين وأبو بكر وعمر يقول أدنيا مني أخاكما وأخذه من قبل القبلة حتى أسنده في لحده ثم خرج رسول الله وولاهما العمل فلما فرغ من دفنه استقبل القبلة رافعا يديه يقول اللهم إني أمسيت عنه راضيا فارض عنه وكان ذلك ليلا فوالله لقد رأيتني ولوددت أني مكانه”
ہندیہ(5/350) میں ہے:
وإذا أراد الدعاء يقوم مستقبل القبلة
البحر الرائق(2/179) میں ہے:
لو قام على النجاسة، وفي رجليه نعلان لم يجز، ولو افترش نعليه وقام عليهما جازت، وبهذا يعلم ما يفعل في زماننا من القيام على النعلين في صلاة الجنازة لكن لا بد من طهارة النعلين
بدائع الصنائع (1/238) میں ہے:
ولو صلى على ثوب مبطن ظهارته طاهرة، وبطانته نجسة، روي عن محمد أنه يجوز، وكذا ذكر في نوادر الصلاة.
وروي عن أبي يوسف أنه لا يجوز، ومن المشايخ من وفق بين الروايتين فقال: جواب محمد فيما إذا كان مخيطا غير مضرب فيكون بمنزلة ثوبين، والأعلى منهما طاهر، وجواب أبي يوسف فيما إذا كان مخيطا مضربا فيكون بمنزلة ثوب واحد ظاهره طاهر، وباطنه نجس ومنهم من حقق فيه الاختلاف فقال: على قول محمد يجوز كيفما كان، وعلى قول أبي يوسف لا يجوز
فتاویٰ قاضیخان(1/80) میں ہے:
واذا صلى على ثوب محشو بطانته نجسة وظهارته طاهرة جازت صلاته في قول محمد ويجعل كثوبين وعلى قول ابي يوسف لا تجوز ويجعل كثوب واحد ولو صلى على ثوب محشو بطانته طاهرة وظهارته كذلك وحشوه نجس جازت صلاته في قول محمد وذكر في السير ما يدل على هذا وعلى قول ابو يوسف لا تجوز صلاته في الفصلين وقوله اقرب الى الاحتياط
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved