• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

نماز جنازہ میں سورۂ فاتحہ پڑھنا

استفتاء

نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت

مفتیان کرام وعلماء کرام ومشایخ عظام ! کیا نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنا لازمی ہے؟ اگر لازمی ہے تو برائے کرم اس کی دلیل بھی ذکر کردیں۔

الجواب بعون الملک الوهاب وهو الموفق للصواب

الحمد لله رب العالمين والعاقبة للمتقين والصلاة والسلام على رسول الله محمد و على آله و أصحابه أجمعين أما بعد

نماز جنازہ، فرض نماز یا کوئی بھی اور نماز ہو اس میں سورۃ فاتحہ پڑھنا لازمی ہے اس کے بغیر کوئی بھی نماز قابل قبول نہیں ہوتی۔

1۔رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:

لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب

“جس نے فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں”

2۔سیدنا ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

من صلى صلاة لم يقرأ فيها بفاتحة الكتاب، فهى خداج، يقولها ثلاثا

“جس نے کوئی بھی نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز نامکمل ہے، یہ بات آپﷺ نے تین مرتبہ فرمائی”

3۔جناب طلحہ بن عبداللہ بن عوف فرماتے ہیں:

صليت خلف ابن عباس رضى الله تعالى عنهما على جنازة فقرأ بفاتحة الكتاب قال ليعلموا انها سنة

“میں نے عبداللہ بن عباسؓ کی اقتداء میں نماز جنازہ ادا کی تو انہوں نے سورۃ فاتحہ پڑھی اور فرمایا:( فاتحہ جہراً اس لیے پڑھی ہے) تاکہ لوگ جان لیں یہ سنت ہے۔”

4۔ عن طلحة بن عبد الله بن عوف، قال: صليت خلف ابن عباس على جنازة، فقرأ بفاتحة الكتاب، ‌وسورة ‌وجهر حتى أسمعنا، فلما فرغ أخذت بيده، فسألته فقال: «سنة وحق»

“طلحہ بن عبداللہ بن عوف فرماتے ہیں کہ میں نے  سیدنا ابن عباسؓ کے پیچھے ایک میت کا جنازہ پڑھا ، انہوں نے سورۂ فاتحہ اور ایک سورت پڑھی  اور (دونوں) بلند آواز سے پڑھیں حتیٰ کہ ہمیں سنائی دی۔ جب وہ فارغ ہوئے تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: یہ سنت اور حق ہے”اور شیخ البانیؒ نے صحیح کہا ہے۔

یاد رہے کہ اگر صحابہ کرامؓ کسی کام کو سنت قرار دیتے ہیں تو یہ مرفوع حدیث کے حکم میں ہے اور رسول اللہﷺ کی سنت ہے۔

آج کل یہ  مسئلہ ( نماز جنازہ میں سوہ فاتحہ پڑھنے کا) خاص مکتبہ فکر کی طرف سے پھیلایا جارہا ہے، لہٰذ اس  بارے میں مدلل جواب کے ساتھ  راہنمائی درکار ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ بطور ثنا و دعا کے پڑھی جائے تو جائز ہے اور اگر بطور قرأت پڑھی جائے جیسے رکوع سجدہ والی نماز میں پڑھی جاتی ہے تو جائز نہیں احناف اور مالکیہ کے نزدیک نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا نہ واجب ہے اور نہ ہی سنت ہے یہی مذہب صحابہ کرام میں سے حضرت عمر حضرت علی حضرت عبداللہ ابن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا ہے اور تابعین میں سے حضرت عطا بن ابی رباح اور حضرت طاؤس اور حضرت سعید بن المسیب اور ابن سیرین اور سعید بن جبیر اور شعبی اور حکم رحمہم اللہ کا ہے کہ یہ حضرات نماز جنازہ میں قرات نہ کرتے تھے بلکہ منع کرتے تھے۔

منسلکہ فتوے میں مذکور جن روایات  میں قرأت فاتحہ کا ذکر ہے ان میں سے پہلی دو روایتوں کا تعلق رکوع سجدہ والی انفرادی نماز سے ہے۔باقی آخری دو احادیث جن میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ قول” ليعلموا انها سنة” (تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ فاتحہ پڑھنا بھی سنت ہے) نقل کیا گیا ہے اس سنت سے مراد فرض تو نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ بات بعید ہے کہ سورہ فاتحہ فرض ہو اور صرف ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کو ہی معلوم ہو باقی صحابہ کو اس کے فرض ہونے  کا علم نہ ہو اور پھر نماز جنازہ میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کو تعلیم دینے کی ضرورت پڑے بلکہ حضرت ابن عباسؓ کے اس عمل پر شاگرد کا ان سے سوال کرنا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس وقت عام طور پر صحابہ کرامؓ سورۃ  فاتحہ نہیں پڑھا کرتے تھے، تب ہی تو ان کو تعجب ہوا اور سوال کرنے کی نوبت آئی۔ نیزحضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ جو سنتوں کی تلاش میں رہتے تھے ان کے متعلق مؤطا امام مالک میں روایت منقول ہے کہ وہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قرأت نہ کرتے تھے ورنہ یہ بات بعید ہے کہ کوئی عمل فرض یا  سنت ہو اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ اسے نہ کریں،  لہذا ان احادیث سے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کے فرض ہونے پر استدلال کرنا درست نہیں۔

اب ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے اس قول سے کیا مراد ہے اس کی علماء نے مختلف توجیہات کی ہیں:

1۔سنت کا لفظ  بیان جواز کے لیے ہے، اس سے سنت اصطلاحی مراد نہیں   کیونکہ حضرت ابن عباسؓ کسی عمل کے جواز کو بیان کرنے کے لیے بھی اس کو سنت کہہ دیتے تھے اور ان کے اس عمل کو  سنت کہنے کا مطلب  یہ ہوتا  تھا کہ یہ بھی جائز ہے جیساکہ انہوں نے نماز میں اقعاء کو سنت کہا ہے حالانکہ اقعاء کسی کے نزدیک بھی سنت نہیں ۔

2۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے جو سورہ فاتحہ پڑھی تو وہ بطور ثنا اور دعا کے پڑھی جو کہ نماز جنازہ میں سنت ہے ۔

موطا امام مالک ( ص210) میں ہے:

مالك عن نافع عبد الله بن عمر كان لا يقرأ في الصلاة على الجنازة۔

عمدۃ القاری (8 / 139) میں ہے:

هذا باب في بيان مشروعية قراءة الفاتحة على الجنازة، وقد اختلفوا فيه، فنقل ابن المنذر عن ابن مسعود والحسن ابن علي وابن الزبير والمسور بن مخرمة مشروعيتها، وبه قال الشافعي وإسحاق، ونقل عن أبي هريرة وابن عمر: ليس فيها قراءة، وهو قول مالك والكوفيين. قلت: وليس ‌في ‌صلاة ‌الجنازة قراءة القرآن عندنا. وقال ابن بطال: وممن كان لا يقرأ في الصلاة على الجنازة وينكر: عمر بن الخطاب وعلي بن أبي طالب وابن عمر وأبو هريرة، ومن التابعين: عطاء وطاؤوس وسعيد بن المسيب وابن سيرين وسعيد بن جبير والشعبي والحكم، وقال ابن المنذر: وبه قال مجاهد وحماد والثوري، وقال مالك: قراءة الفاتحة ليست معمولا بها في بلدنا ‌في ‌صلاة ‌الجنازة۔

اعلاء السنن  (8 / 452) میں ہے:

وقال ابن بطال في شرح البخاري اختلف في قراءة الفاتحة على الجنازة فقرأ بها قوم على ظاهر حديث ابن عباس رضي الله عنه وبه قال الشافعي وكان عمر وابنه وعلي وابو هريرة ينكرونه وبه قال ابو حنيفة ومالك وقال الطحاوى من قرأها من الصحابة يحتمل ان يكون على وجه الدعاء لا التلاوة….

بدائع الصنائع (2 /52) میں ہے:

ولا يقرأ في ‌الصلاة ‌على ‌الجنازة بشيء من القرآن ولنا ما روي عن ابن مسعود «أنه سئل عن صلاة الجنازة هل يقرأ فيها؟ فقال: لم يوقت لنا رسول الله – صلى الله عليه وسلم – قولا ولا قراءة» ، وفي رواية دعاء ولا قراءة كبر ما كبر الإمام واختر من أطيب الكلام ما شئت، وفي رواية واختر من الدعاء أطيبه وروي عن عبد الرحمن بن عوف، وابن عمر أنهما قالا: ليس فيها قراءة شيء من القرآنولأنها شرعت للدعاء، ومقدمة الدعاء الحمد والثناء والصلاة على النبي – صلى الله عليه وسلم – لا القراءة، وقوله عليه السلام «لا صلاة إلا بفاتحة الكتاب» ولا صلاة إلا بقراءة لا يتناول صلاة الجنازة؛ لأنها ليست بصلاة حقيقة إنما هي دعاء واستغفار للميت، ألا ترى أنه ليس فيها الأركان التي تتركب منها الصلاة من الركوع والسجود إلا أنها تسمى صلاة لما فيها من الدعاء، واشتراط الطهارة، واستقبال القبلة فيها لا يدل على كونها صلاة حقيقية كسجدة التلاوة؛ ولأنها ليست بصلاة مطلقة فلا يتناولها مطلق الاسم وحديث ابن عباس معارض بحديث ابن عمر وابن عوف، وتأويل حديث جابر أنه كان قرأ على سبيل الثناء لا على سبيل قراءة القرآن، وذلك ليس بمكروه عندنا۔

فتاوی  عالمگیری(1/164) ميں ہے:

ولا يقرأ فيها القرآن ولو قرأ الفاتحة بنية الدعاء فلا بأس به وإن قرأها بنية القراءة لا يجوز؛ ‌لأنها ‌محل ‌الدعاء دون القراءة، كذا في محيط السرخسي.

صحیح مسلم (رقم الحدیث:1198) میں ہے:

حدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا محمد بن بكر، ح قال: وحدثنا حسن الحلواني، حدثنا عبد الرزاق وتقاربا في اللفظ قالا: جميعا أخبرنا ابن جريج، أخبرني أبو الزبير، أنه سمع طاوسا يقول: قلنا لابن عباس في الإقعاء على القدمين، فقال:هي السنة»، فقلنا له: إنا لنراه جفاء بالرجل فقال ابن عباس: «‌بل ‌هي ‌سنة ‌نبيك صلى الله عليه وسلم

سنن ترمذی(رقم الحدیث:282) میں ہے:

عن علي، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا علي، أحب لك ما ‌أحب ‌لنفسي، وأكره لك ما أكره لنفسي، لا تقع بين السجدتين

امداد الفتاوی (1/564) میں ہے:

رہا نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنے کی سنت ہونے کا مسئلہ تو جاننا چاہیے کہ سنت کا لفظ دو معنی میں استعمال کیا جاتا ہے :

1۔ایک یہ کہ کبھی کبھی بیان جواز وغیرہ مصالح شرعیہ کے لیے شارع علیہ السلام نے وہ فعل کیا ہو اس معنی کر کے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی سنت ہونے کا انکار نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے اقعاء ( دونوں پیر کھڑے کر کے ایڑیوں پر جلسہ میں بیٹھنا )کو سنت فرمایا ہے۔

2۔دوسرے معنی سنت کے یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقصد استحسان ( اچھا سمجھ کر) وہ کام کیا ہو اور سنت کا اکثری اطلاق اسی دوسرے معنی پر ہوتا ہے اسی معنی کر کے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کے سنت ہونے میں کلام ہے امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ نفی فرماتے ہیں اور دیگر فقہاء ثابت کرنے کے در پے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved