• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

نماز کی نیت

استفتاء

مفتی صاحب جب میں مدرسہ میں پڑھتی تھی تو ہمیں بتایا گیا تھا کہ نماز کے تیرہ فرائض ہیں جن میں سے ایک نیت ہے مگر وہ لوگ کہتے ہیں کہ نیت نہیں کرنا چاہیے۔مہربانی فرما کر آپ ذرا وضاحت سے بتائیں کہ ایسا کہنا چاہیے کہ "چار رکعت نماز سنت ، اللہ اکبر۔”

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

نیت اصل میں دل کے ہوتی ہے اور یہ نماز کیلئے بلکہ ہر ثواب کے کام کیلئے شرط ہے اور ضروری ہے۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی ظہر کی نماز کیلئے کھڑا ہو اور اسکا دل اس بات سے خالی ہو کہ وہ نماز پڑھ رہا ہے اور ظہر کی نماز پڑھ رہا ہے۔حدیث میں ہے   انما الاعمال بالنيات   اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔زبان سے کہنا کوئی شرط نہیں ہے یہ تو محض دل کی نیت کی پختگی کیلئے۔کوئی زبان سے نہ کہے لیکن دل میں ہو تب بھی نیت ہو جاتی ہے۔اور نماز صحیح ہوتی ہے۔پہلے سے لوگ ناواقفیت    باتیں کرتے کرتے یا کسی اور بات میں مشغول ہوتے ہوئے نماز کی تحریمہ کہ لیتے ہیں اور نیت کی توجہ نہیں کرتے اس لئے کہنے کو کہا جاتا ہے۔ حدیث میں کہیں زبان سے کہنے کو منع نہیں کیا۔ اور حدیث کے ایک حکم یعنی دل کی نیت فوت نہ ہو اسلئے زبان کی نیت کو کہا تو یہ بات کچھ بھی حدیث کے خلاف نہیں بلکہ حدیث کے بتائے حکم پر عمل کی تاکید کیلئے ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved