- فتوی نمبر: 30-150
- تاریخ: 25 جون 2023
- عنوانات: عبادات > نماز > نماز پڑھنے کا طریقہ
استفتاء
کیا نماز میں سورۂ فاتحہ اور سورت کے درمیان تسمیہ پڑھنا چاہیے یا نہیں ؟ جبکہ بہشی زیور میں ہے کہ پڑھے اور ہدایہ میں ہے کہ نہ پڑھے ۔
بہشتی زیور کی عبارت :
پھر اعوذ باللہ ، بسم اللہ پڑھ کر الحمد پڑھے اور “والضالین “ کے بعد آمین کہے۔ پھر بسم اللہ پڑھ کر کوئی سورت پڑھے پھر اللہ اکبر کہہ کے رکوع میں جائے ۔ ( بہشتی زیور ص 83)
ہدایہ کی عبارت :
ثم عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أنه لا يأتي بها في أول كل ركعة كالتعوذ وعنه أنه يأتي بها احتياطا وهو قولهما ولا يأتي بها بين السورة والفاتحة إلا عند محمد رحمه الله تعالى فإنه يأتي بها في صلاة المخافتة ” (هدايه 1/50)
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
نماز میں سورهٔ فاتحہ اور سورت کے درمیان بسم اللہ پڑھنی چاہیے ۔باقی رہی یہ بات کہ ہدایہ میں ہے کہ نہ پڑھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو ہدایہ کی یہ بات امام ابو حنیفہؒ اور امام ابو یوسف ؒ کے موقف کے مطابق ہے بلکہ بعض کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف امام ابو یوسف ؒ کے موقف کے مطابق ہے جیسا کہ فتاوی شامی کے آئندہ آنے والے حوالے میں ہے۔ جبکہ خود ہدایہ میں ہی آگے ہے ” الا عند محمد” یعنی امام محمد کے نزدیک پڑھے ۔ اور دوسرے حضرات شیخین ؒ یا امام ابو یوسف ؒ کا قول عدم سنیت کے بارے میں ہے اور عدم سنیت میں اگرچہ ان حضرات کا قول راجح ہے تا ہم اولویت اور استحباب میں امام محمدؒ کا قول راجح ہے بلکہ امام ابو حنیفہ ؒ بھی اولویت کے مسئلے میں امام محمد ؒ کے ساتھ ہیں ۔لہذا بہشتی زیور کے مسئلہ میں اور ہدایہ کے مسئلہ میں کوئی تعارض نہیں ۔
فتاوی شامی ( 1/490) میں ہے :
لا) تسن (بين الفاتحة والسورة مطلقاً) ولو سريةً، ولاتكره اتفاقاً۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (قوله لا تسن) مقتضى كلام المتن أن يقال لا يسمي، لكنه عدل عنه لإبهامه الكراهة، بخلاف نفي السنية. ثم إن هذا قولهما وصححه في البدائع. وقال محمد: تسن إن خافت لا إن جهر بحر، ونسب ابن الضياء في شرح الغزنوية الأول إلى أبي يوسف فقط فقال: وهذا قول أبي يوسف. وذكر في المصفى أن الفتوى على قول أبي يوسف أنه يسمي في أول كل ركعة ويخفيها. وذكر في المحيط: المختار قول محمد، وهو أن يسمي قبل الفاتحة وقبل كل سورة في كل ركعة
مطلب قراءة البسملة بين الفاتحة والسورة حسن. (قوله: ولاتكره اتفاقاً) ولهذا صرح في الذخيرة والمجتبى بأنه إن سمى بين الفاتحة والسورة المقروءة سرًّا أو جهراً كان حسناً عند أبي حنيفة، ورجحه المحقق ابن الهمام وتلميذه الحلبي لشبهة الاختلاف في كونها آيةً من كل سورة، بحر”
احسن الفتاوی (3/74) میں ہے :
سوال :- سورت کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا مستحب ہے یا نہیں ؟ بہشتی زیور میں پڑھنے کو ترجیح دی ہے، مگر مستخلص میں نہ پڑھنے کو، عبارت یہ ہے :
واما عند رأس كل سورة فلا یاتی بها في الصلوة عند أبي حنيفة وابي يوسف رحمهما الله تعالى وقال محمد رحمه الله تعا يأتي بها احتياطاً والصحيح قولهما، بينوا توجروا
الجواب باسم ملہم الصواب :- سنیت میں اختلاف ہے، اور عدم سنیت راجح ہے مگر اولویت میں کوئی اختلاف نہیں، لہذا بہشتی زیور کا مسئلہ صحیح ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved