- فتوی نمبر: 23-170
- تاریخ: 23 اپریل 2024
- عنوانات: عبادات > نماز > سنت اور نفل نمازوں کا بیان
استفتاء
1۔ نماز عید سے پہلے اور بعد میں اور 2۔ عرفات میں ظہر اور عصر کے درمیان اور بعد میں اور مزدلفہ میں عشاء اور مغرب کے درمیان میں نفل پڑھنا مکروہ تحریمی ہے یا تنزیہی ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ نماز عید سے پہلے مطلقاً اور نماز عید کے بعدزوال تک جس جگہ عید کی نماز پڑھی ہو(خواہ وہ جگہ عید گاہ ہو یا مسجد ہو) وہاں نفل پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔ اس کے علاوہ جگہوں یا انہیں جگہوں پر مگر زوال کے بعد نفل پڑھنا مکروہ نہیں۔
طحطاوی علی الدر المختار(كتاب الصلاة، باب العيدين، ١/ ٣٥٣) میں ہے
‘ولا يتنفل قبلها مطلقاً … و كذا لا يتنفل بعدها في مصلاه؛ فإنه مكروه عند العامة، و إن تنفل بعدها في البيت جاز … قوله: (فإنه مكروه) أي تحريماً…الخ.
فتاویٰ رحیمیہ (6/167) میں ہے
س: عيد کے روز نماز عید سے پہلے مسجد میں نماز پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟ اگر مکروہ ہے تو تنزیہی یا تحریمی؟
ج: نہیں پڑ ھ سکتے، پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔
احسن الفتاوی(4/130) میں ہے
سوال: بہشتی زیور میں ہے کہ جہاں عیدین کی نماز ہو وہاں عید سے قبل اور بعد نفل نماز مکروہ ہے، تو اگر مسجد میں عید کی نماز پڑھی ہو تو اس دن کی نفل نماز جیسے ظہر کے نفل اور عصر کی چار سنت غیر مؤکدہ پڑھنا بھی اسی مسجد میں مکروہ ہے یا بلاکراہت جائز ہوں گے۔
الجواب: عید گاہ میں کراہت نوافل کی وجہ یہ ہی کہ نماز عید پر زیادتی کا وہم نہ ہو، اور نماز عید کا وقت زوال تک ہے اس لیے زوال کے بعد مسجد میں نوافل مکروہ نہیں۔
2۔ عرفات میں ظہر اور عصر کے درمیان یا عصر کے بعد اور اسی طرح مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کے درمیان نفل پڑھنا مکروہ ہے:
البحر الرائق (2/ 361) میں ہے
قوله ثم إلى عرفات بعد صلاة الفجر يوم عرفة) ……. (قوله ثم خطب) ….. (قوله ثم صلی بعد الزوال الظهر والعصر بأذان وإقامتين بشرط الإمام والإحرام) ….. وأشار بذكر العصر بعد الظهر إلى أنه لا يصلي سنة الظهر البعدية، وهو الصحيح كما في التصحيح فبالأولى أن لا ينتقل بينهما فلو فعل كره، وأعاد الأذان للعصر لانقطاع فوره فصار كالاشتغال بينهما بفعل آخر.
مناسك ملا علی قاری: (ص: 193) میں ہے
(ويكره للإمام والمأموم) أي ممن أراد الجمع بين الصلاتين على ما صرح به قاضيخان (أن يشتغل) كل منهما (بالسنن) أي بسنة الظهر البعدية وسنة العصر القبلية (والتطوع) أي النافلة على ما ذكره في البدائع والتحفة (أو شيء آخر) أي عمل آخر بالأولى كالأكل والشرب والكلام.
غنیۃ الناسک (ص: 163) میں ہے
فإذا دخل وقت العشاء أذن المؤذن ويقيم فيصلي بهم المغرب في أول وقت العشاء ….. ولا يتطوع بينهما ويصلي سنة المغرب والعشاء والوتر بعدهما …. فإن تطوع أو تشاغل بينهما يعد فصلاً في العرف كره وأعاد الإقامة للعشاء دون الأذن.
اس کراہت سے کراہتِ تحریمی مراد ہےیا تنزیہی؟ اس کی تصریح (باوجود اردو و عربی کی کتب میں تلاش کے) نہیں ملی۔
لیکن مندجہ ذیل وجوہات سے معلوم ہوتا ہے کہ کراہت سے مراد تحریمی ہو:
- کتب فقہ میں یہ قاعدہ لکھا ہے کہ جہاں مطلق کراہت کا ذکر ہو اس سے مراد کراہت تحریمی ہوتی ہے۔
- عید کی نماز سے پہلے نفل پڑھنے کا مکروہ تحریمی ہونا اس وجہ سے ہے کہ آپ ﷺ نے نفل نہیں پڑھے حالانکہ آپ ﷺ نفل پڑھنے میں حرص کے درجے میں دلچسپی رکھتے تھے، لہذا نہ پڑھنا سنت اور پڑھنا مکروہ تحریمی ہے، یہ وجہ یہاں بھی پائی جاتی ہے کہ آپ ﷺ سے پڑھنا ثابت نہیں۔ لہذا نہ پڑھنا سنت اور پڑھنا مکروہ تحریمی ہو گا۔
- تمام فقہاء کے نزدیک بلا اختلاف ان مواقع میں نفل پڑھنا مکروہ ہے۔ تمام فقہاء کے اتفاق کی وجہ سے بھی اس کراہت میں شدت معلوم ہوتی ہے۔
حاشية ابن عابدين (1/ 224)
مطلب الكراهة حيث أطلقت فالمراد منها التحريم قال في البحر واعلم أن المكروه إذا أطلق في كلامهم فالمراد منه التحريم إلا أن ينص على كراهة التنزيه فقد قال المصنف في المصفى لفظ الكراهة عند الإطلاق يراد بها التحريم قال أبو يوسف قلت لأبي حنيفة إذا قلت في شيء أكرهه فما رأيك فيه قال التحريم ا هـ
بدائع الصنائع (2/ 152)
فإذا فرغ من الخطبة أقام المؤذنون فصلى الإمام بهم صلاة الظهر ثم يقوم المؤذنون فيقيمون للعصر فيصلى بهم الظهر والعصر بأذان واحد وإقامتين ولا يشتغل الإمام والقوم بالسنن والتطوع فيما بينهما لأن النبي جمع بينهما بعرفة يوم عرفة بأذان واحد وإقامتين ولم يتنفل قبلهما ولا بعدهما مع حرصه على النوافل.
موسوعہ فقہیہ کویتیہ (45/ 325) میں ہے
وذهب جمهور الفقهاء: الحنفية في ظاهر الرواية وهو المذهب عندهم والمالكية والشافعية والحنابلة إلى أنه يكره التطوع بين صلاتي الظهر والعصر بعرفة لحديث جابر: ثم أذن ثم أقام فصلى الظهر ثم أقام فصلى العصر ولم يصل بينهما شيئاً.
موسوعہ فقہیہ کویتیہ (7/ 185) میں ہے
ذهب جمهور الفقهاء إلى كراهة النفل بين الصلاتين المجموعتين جمع تقديم في عرفة والمجموعتين جمع تأخير ….. لأنه صلى الله عليه و سلم لم يتطوع بينهما.
اوجز المسالک (7/488) میں ہے
والسنة أن لا يتطوع بينهما [في المزدلفة]، قال المنذر: لا أعلمهم يختلفون في ذلك.
النهر الفائق شرح كنز الدقائق (2/ 83)
وفي قوله الظهر والعصر إيماء إلى أنه لا يتطوع بينهما، وعلى ذلك اتفقت كلمتهم
…………………………………………………………………………… فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved