- فتوی نمبر: 8-150
- تاریخ: 24 دسمبر 2015
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
السلام علیکم محترم و مکرمی مفتی صاحب! گذارش ہے کہ میرا تعلق تقریباً سات سال سے موبائلز کی خرید و فروخت کے کاروبار سے ہے اور موبائل کے استعمال کی بدلتی ہوئی نوعیت کی وجہ سے میں مندرجہ ذیل پہلوؤں کی روشنی میں اس کی حرمت کے حوالے سے اس کاروبار کی وضاحت چاہتا ہوں۔
پہلے موبائل صرف فون کرنے، سننے اور پیغام رسانی کے لیے استعمال ہوتا تھا، لیکن اب وقت کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی میں
ترقی ہونے کی وجہ سے اس میں مندرجہ ذیل صلاحتیں بھی آ گئی ہیں:
1۔ کیمرہ، 2۔ انٹرنیٹ،3۔ فون کرنے اور سننے کے لیے ارزاں قیمت کے کالنگ ریٹ،4 مفت انٹرنیٹ کال،5۔ ویڈیو کال
اگرچہ کیمرہ کا استعمال موبائل فون میں اختیاری ہے لیکن شاید ہی کوئی ایسا صارف ہو جو کیمرہ والا فون رکھتے ہوئے بھی اس کے بے جا استعمال سے بچا ہو، جیسا کہ عام طور پر تصویر کشی، ویڈیو کالنگ، واٹس اپ اور فیس بک جیسے سوفٹ ویئر کے ذریعے تصویروں اور ویڈیو کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرنا اور اس کے ہمارے معاشرے خصوصاً جوان نسل پر دن بدن بڑھتے ہوئے منفی اثرات کو کوئی بھی صاحب عقل و فہم نظر انداز نہیں کر سکتا۔ کیونکہ موبائل ہر استعمال کنندہ کے پاس انفرادی طور پر ہوتا ہے، اس لیے ہر آدمی کو اس کے ہر قسم کے استعمال کی آزادی ہے، بلکہ تنہائی میں اس کو استعمال کرتے وقت انسان بعض اوقات ہر قسم کے اخلاقی، معاشرتی اور مذہبی دباؤ سے آزاد ہوتا ہے، بلکہ اب تو یہ حالات مشاہدے میں آرہے ہیں کہ ہماری قوم کا وہ طبقہ جو آج والدین اور اساتذہ کی صف میں کھڑا ہے وہ موبائل فون کے آزادانہ استعمال کو نہ صرف صحیح سمجھتا ہے بلکہ اس کے آزادانہ استعمال کو دنیاوی ترقی کے لیے لازم و ملزوم جانتا ہے، اگرچہ قلیل تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو اس کی برائیوں سے باخبر ہیں، لیکن اندھا دھند معاشرتی تقلید کی وجہ سے نہ صرف خود اس فتنہ کا بری طرح شکار ہیں بلکہ بچوں پر ہر وقت خبر گیری ممکن نہ ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کے بچے بھی اس فتنہ میں گرفتار ہو چکے ہیں، جیسا کہ نوجوان نسل کے لڑکے لڑکیوں کے آپس میں آزادانہ رابطے یا جن گھرانوں میں ابھی بھی بڑوں کا کچھ ادب موجود ہے وہاں پر چھپ کر آپس میں رابطے اور صرف اسی پر بس نہیں بلکہ ستم بالائے ستم یہ کہ انٹر نیٹ کا استعمال ان رابطوں کو تصویری شکل میں ایک دوسرے کو پہچاننے میں بہت معاون اور مدد گار ثابت ہو رہا ہے۔
اگرچہ انٹر نیٹ کا استعمال بھی اختیاری ہے لیکن موبائل فون کی انفرادی حیثیت کی وجہ سے اور انٹرنیٹ کی بالکل سستی اور آسان دستیابی کی وجہ سے اکثر نوجوان بچے اور بچیاں نہ صرف دین سے دور ہو چکے ہیں بلکہ اس سے بے زار اور مغربی معاشرت کے دلدادہ نظر آتے ہیں، کیونکہ انٹر نیٹ پر مغربی میڈیا کا تسلط اس قدر زیادہ ہے کہ کوئی بھی اس کا استعمال کنندہ اس سے منفی طور پر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ خواہ کوئی اس کو دین کی ترویج و اشاعت کے لیے بھی استعمال کر رہا ہو، کیونکہ وہ ان اشتہارات سے جو بعض اوقات انتہائی فحش اور بے حیائی پر مبنی ہوتے ہیں سے بالکل نہیں بچ سکتا، جو کوئی بھی دینی کام کرتے ہوئے غیر اختیاری طور پر اس کے سامنے آ جاتے ہیں، اور اس کے علاوہ فیس بک اور واٹس اپ جیسے بیسیوں ایسے سوفٹ ویئر بالکل مفت دستیاب ہیں جو ایک نشہ کی طرح استعمال کرنے والے کو اپنا عادی بنا لیتے ہیں، جس کے نتیجے میں بہت سے لوگ اپنے فرائض و واجبات کو بھی بھول جاتے ہیں اور آہستہ آہستہ بے دینی کا شکار ہو جاتے ہیں، کیونکہ میں کافی عرصہ سے اس کاروبار سے منسلک ہوں، اس لیے مشاہدے میں تقریباً ایسے معاملات آتے رہتے ہیں۔ اور اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہو گا کہ اس فتنہ سے ہمارے ہر طبقہ کا آدمی متاثر ہے جس میں ایک عام ان پڑھ ریڑھی بان یا رکشہ چلانے والے سے لے کر بڑے بڑے پڑھے لکھے اشخاص اور حتیٰ کہ مدارس میں علماء اور مفتی بننے والے طلبہ اور ان کے اساتذہ کرام بھی اس کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہماری مارکیٹ میں آنے والے بہت سارے ایسے لوگ میرے گاہک ہیں کہ جن کے موبائل جب کاروباری تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اندر سے چیک کیے جاتے ہیں تو اس میں بعض اوقات ایسا گھٹیا مواد بر آمد ہوتا ہے (جیسے تصویریں اور فلمیں) جو کہ نہ صرف اخلاقی طور پر بے حد غلیظ ہوتا ہے بلکہ اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہو گا کہ ایسے افراد کا اخلاق کے ساتھ ساتھ ایمان بچنا بھی بہت مشکل امر ہے۔
اور ان سب کے علاوہ حق اظہار آزادی رائے کو بنیاد بنا کر مادر پدر آزاد میڈیا کو استعمال کر کے بد عقیدہ لوگ دین کو تروڑ مروڑ کر پیش کر کے لوگوں کے عقائد خراب کر رہے ہیں۔ بلکہ مغربی قوتوں کی طرف سے لوگوں کی ایسی ذہن سازی کی جا رہی ہے کہ اب مسلمانوں کے سامنے ان کے اکابرین اور ان کے مقدس مقامات پر کیچڑ اچھالا جائے تو وہ اس کو حق آزادی رائے سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں، دینی حمیت اور غیرت معدوم ہوتی نظر آ رہی ہے۔
اگر آپ مندرجہ بالا باتوں کو پرکھنا چاہتے ہیں تو اپنے ہی ادارے کے صرف ایسے دس افراد کا موبائل اچانک چیک کریں جو کیمرہ اور انٹر نیٹ والا موبائل استعمال کرتے ہیں، یا ایسے لوگوں سے مشورہ کریں جو انٹرنیٹ کا استعمال دین کی خدمت کے نظریہ سے کر رہے ہیں۔ انشاء اللہ حقیقت آپ کے سامنے عیاں ہو جائے گی۔ برائے مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں مفصل جواب عنایت فرمائیں کہ کیمرے والے موبائل فون کا استعمال اور خرید و فروخت کن حالات میں یا کن ضروریات کے تحت جائز اور حلال ہے؟ تاکہ امت مسلمہ اس فتنہ سے محفوظ ہو سکے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں سائل کی اس بات سے ہمیں اتفاق ہے کہ نیٹ اور کیمرے والے موبائل کو بہت زیادہ غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ لیکن جب کسی شے کے جائز و ناجائز دونوں طرح کے استعمال ہوں تو اس کی خرید و فروخت کی گنجائش ہے۔ اور کوئی پرہیز کرے اور لوگوں کو خرابیوں سے بچانے کی نیت کرے تو اچھی بات ہے۔
لہذا کیمرے اور نیٹ والا موبائل خریدنا اور فروخت کرنا جائز ہے۔ کیونکہ ایسے موبائل سے بہت سے مفید کام ہر جگہ لیے جا سکتے ہیں۔ کیمرے سے غیر جاندار بہت اشیاء کی تصاویر لی جا سکتی ہیں۔ مثلاً کسی مکان کے Outlook کے بارے میں مشورہ کرنا، یا کسی مشین کو دیکھنا ہو۔ اور نیٹ سے بھی کسی چیز کے بارے میں معلومات حاصل کرنی ہو، وغیرہ وغیرہ۔
تنبیہ: نیز یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ کسی کے فتوے سے یا کسی دکاندار کے ایسے موبائل کو فروخت نہ کرنے سے ان کی خرید و فروخت کا سلسلہ ختم نہیں ہو جائے گا۔ لوگوں کو سمجھاتے رہیں اور دین کی طرف بلاتے رہیں تو توقع ہے کہ کچھ لوگ ایسے موبائلوں کے غلط استعمال سے پرہیز کریں۔ ساتھ میں خود بھی احتیاط کریں۔ اپنے دین و ایمان کو بچانا بہت ضروری ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved