• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

نقصان کی تلافی کا مطالبہ

استفتاء

ہمارے والد حافظ ***نے 10 فروری 2012ء کو اپنے ملکیتی 2 پلاٹ 9D اور 207D واقع اشرفی ٹاؤن بیچنے کا معاہدہ کیا۔ 8 مارچ 2012ء کو والد صاحب  فوت ہو گئے، ابا جی نے مذکورہ دونوں پلاٹ 1450000 روپے میں خریدے تھے، اور 5 سال بعد نقصان کے ساتھ 1225000 روپے میں فروخت کیے۔ ابا جی کی وفات کے بعد ہم وارثوں نے مذکورہ پلاٹ خریدار کے نام کروا دیے ہیں۔

انتقال کے بعد *** *** صاحب میرے پاس آئے اور بتایا کہ پلاٹ207Dْْْ آپ کے ابا جی کے پاس بطور امانت تھا، ان کا ملکیتی نہیں تھا۔ لہذا آپ میرا نقصان پورا کریں۔

تفصیل یہ تھی کہ انہوں نے میرے ابا جی کو دو پلاٹ 9D اور 10D بیچے تھے۔  10Dپلاٹ کارنر کا تھا، اس کی قیمت بہت زیادہ تھی، ابتداء میں سودا کرتے وقت ابا جی نے اس کے لیے 150000 روپے دیے تھے۔ *** صاحب ڈیلر تھے اس لیے انہوں نے 150000 روپے کی گارنٹی کے طور پر اپنا  پلاٹ207D کے کاغذات ابا جی کو دیے تھے۔بعد میں10D کا مالک 150000 روپے لے کر بھاگ گیا۔ لہذا اب آپ کی207D قیمت میں سے 150000 روپے کاٹ کر باقی مجھے واپس کریں۔ اور دلیل کے طور پر انہوں نے مجھے معاہدہ کی کاپی لا کر دکھائی۔ میں نے ان سے کہا کہ

1۔ آپ کے پاس صرف فوٹو کاپی ہے، اصل نہیں (ان کے بقول انہوں نے اصل اباجی کو دے دی تھی)۔

2۔ 5 سال کا عرصہ گذر چکا ہے اور آپ نے10D معاہدہ کے مطابق اباجی کے نام نہیں کروایا، نیز اباجی آخر تک ذہنی طور پر تندرست رہے اور انہوں نے کبھی ھی ہمیں نہیں بتایا بلکہ آگے سودا بھی انہوں نے کیا تھا۔ نیز  آپ نے207D بھی پھر اباج کے نام کروا دیا تھا۔

3۔ 2006ء میں ہم نے آپ کو دونوں پلاٹ9D اور 207D کے ادا کیے، 2012ء میں ہم وہ پلاٹ نقصان کر کے 1225000 روپے میں بیچے حالانکہ زمینوں کی قیمت بڑھتی ہے کم نہیں ہوتی۔ ہماری تحقیق کے مطابق آپ نے ابا جی کو دھوکہ دے کر بہت مہنگے پلاٹ بیچے اور ابا جی کے ڈیلر کو 100000 روپے کمیشن الگ سے ادا کی۔

تفصیل یہ ہے کہ ابا جی نے اصل میں ایک اور ڈیلر حنیف صاحب سے رابطہ کیا تھا، جنہوں نے *** صاحب سے ملوایا، دونوں نے طے کیا کہ *** صاحب مہنگا سودا کروائیں گے، حنیف صاحب گاہک کو گھیر کر رکھیں گے، جس پر حنیف صاحب کو علیحدہ سے 100000 روپے ملیں گے۔ اس بات کا اعتراف حنیف صاحب نے وفات سے پہلے بیماری مبتلا ہونے پر ابا جی سے کیا اور ایک لاکھ روپے معاف کروائے۔

ان وجوہات کی بنیاد پر میں *** صاحب کی کوئی بات سننے کو تیار نہ تھا، مگر اس خیال سے کہ ابا جی کی قبر پر کوئی بوجھ نہ رہے دوبارہ تعاون کے لیے تیار ہو گیا۔ تو میں نے آگے خریدار سے دونوں پلاٹوں کی واپسی کی بات کی تو وہ 50000 روپے نفع رکھ کر واپس کرنے کو تیار ہو گیا۔ میں نے *** صاحب کو فون کیا کہ اگر آپ کا نقصان ہو رہا ہے اور آپ پلاٹ واپس لینا چاہتے ہیں تو 50000 روپے لائیں تاکہ دونوں پلاٹ آپ کو دے دیے جائیں۔ *** صاحب نے مجھے ٹالنا شروع کر دیا، حتی کہ بار بار کہنے کے باوجود بھی چار مہینے گذار دیے۔ آخر کار ہم وارثان نے عدالتی ڈگری پر اس خریدار نے جس کے نام کہا لگوا دیے۔

اب *** صاحب کا کہنا ہے کہ آپ میرا 150000 روپے  کا نقصان پورا کریں۔ کیا میرے ذمہ *** صاحب کا کچھ بنتا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں خرم عزیز پر *** کی شرعاً کوئی دینداری نہیں ہے، کیونکہ

1۔ کوئی بھی شخص اگر کسی کے پاس اپنے پلاٹ کے کاغذات بطور گارنٹی / دین رکھواتا ہے تو اس کے نام نہیں کرواتے۔

2۔ اقرار نامہ میں درج ہے: "اگر تاریخ مقررہ تک یعنی 2006- 12- 10 پلاٹ نمبر10D کو ٹرانسفر نہ کر سکا تو مقر الیہ کی پلاٹ207D کی ٹرانسفر کروانے کا ذمہ دار ہوں گا”۔ (*** صاحب10D کا ٹرانسفر نہ کرا سکے)۔

3۔ *** صاحب کے بقول اقرار نامہ کی اصل کاپی انہوں نے حافظ صاحب کو دے دی تھی، حالانکہ اصل کاپی *** صاحب کو اپنے پاس رکھنی تھی، کیونکہ انہوں نے اپنا پلاٹ واپس لینا تھا، اور مدعی کے ذمے ہوتا ہے کہ وہ اصل ثبوت فراہم کرے۔ فقط و اللہ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved