• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

پاؤں دھونے سے معذور شخص کے لیے پاؤں پر مسح کا حکم

استفتاء

2سال پہلے نومبر میں میری چھوٹی بہن ( جس کی عمر تقریباً 20سال ہے)  سیڑھیوں سے گر گئی تھی اس کی ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوئی تھی۔ اس کے تین آپریشن ہوئے ہیں اور ابھی وہ خود سے چل نہیں سکتی۔ اس کی ایک ٹانگ میں پاور (طاقت) بہت کم ہے۔ وہ سٹینڈ پکڑ کر تھوڑا بہت چلتی ہے، واش روم بھی اس کو کمرے میں کرسی پر کروایا جاتا ہے اور بعض اوقات وہ خود بھی اپنی ہمت کرکے سٹینڈ پکڑ کر واش روم چلی جاتی ہے اور کموڈ استعمال کرتی ہے۔

ماشاء اللہ پانچ وقت کی نمازی ہے اور بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم بھی دیتی ہے۔ فارغ وقت میں اسلامی کتب اور تفاسیر بھی پڑھتی ہے۔ اب مسئلہ وضو کرنے کاہے، بعض دفعہ وہ اپنی ایزی چیئر جس پر وہ نماز پڑھتی ہے (واضح رہے سجدہ نہیں کرسکتی  اس لیے سجدہ بھی اشارے سے کرتی ہے) اس پر بیٹھ کر وضو بھی کرلیتی ہے اور بعض اوقات اپنی طاقت کے مطابق بیسن پر جا کر کرتی ہے۔ زیادہ تر کرسی پر ہی کرتی ہے۔ ڈاکٹرز نے اسے گرمیوں میں بھی پنکھے کے نیچے بیٹھنے سے منع کیا ہوا ہے۔ وہ جرابیں پہن کر رکھتی ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق جتنا زیادہ گرمائش میں رہے گی اور ٹھنڈ سے بچے گی اتنی جلدی ٹھیک ہونے کے چانس زیادہ ہیں۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ پہلے تو وہ وضو پورا کرتی تھی، پاؤں پر صرف مسح کرتی تھی، پاؤں گیلے نہیں کرتی تھی۔ پھر کسی نے دیکھ کر کہا کہ جب تم پورا وضو کر سکتی ہو تو پاؤں پر صرف مسح کرنے سے وضو نہیں ہوتا۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ وہ پورا وضو کر تو سکتی ہے لیکن بار بار پاؤں گیلے کرنا نقصان دہ ہے اس لیے سوال یہ ہے کہ کیا ایسے مریض کے لیے پاؤں کا مسح جائز ہے جبکہ باقی وضو پورا کیا جائے؟

واضح رہے کہ گرمیوں میں بھی وہ گرم پانی سے نہاتی  ہے۔ اور گرم کپڑا استعمال کرتی ہے۔ آخر میں آپ سے درخواست بھی ہے کہ اپنی خاص دعاؤں  میں اسے یاد رکھیں اس کا نام طوبیٰ ہے۔ اللہ پاک اسے تندرستی عطا فرمائے اور محتاجی سے بچائے۔ آمین

وضاحت مطلوب ہے: (1) کہ صرف پاؤں دھونے سے کیا نقصان ہوتا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ جو ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ جتنا گرم رہیں گی جلدی ٹھیک ہونے کے چانس زیادہ ہیں، یہ مراد ہے یا اس کے علاوہ کچھ خاص نقصان مراد ہے ، جو باقی اعضاء کو دھونے سے تو نہیں ہوتا  صرف پاؤں دھونے سے ہوتا ہے؟

(2)کیا پاؤں پر مسح کر سکتی ہیں یا نہیں؟

جواب وضاحت: (1) ریڑھ کی ہڈی متاثر ہونے کی وجہ سے پاؤں میں خون کی گردش بہت کم ہے، اگر پاؤں (ٹانگیں) ٹھندے ہوجائیں تو گرم بہت دیر میں ہوتے ہیں، باقی اعضاء وضو کرنے سے ٹھنڈے ہو بھی جائیں تو مسئلہ نہیں کیونکہ ان میں خون کی گردش ٹھیک ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ سردیوں میں گیس نہیں ہوتا کہ پانی گرم کرکے وضو کر لیا جائے اور بعد میں پاؤں اور ٹانگیں سینک لی جائیں، پاؤں ٹھنڈے ہونے سے ٹانگیں اوپر تک ٹھنڈی ہوجاتیں ہیں اور گرم بھی نہیں ہوتی جلدی سے، جس کی وجہ سے پیشاب بھی بار بار آتا ہے۔ جب مریض کی ٹانگوں میں خون کی گردش کم ہو تو ایسی صورت میں اگر گرم پانی بھی استعمال کیا جائے تو وہ بھی صحت کے لیے نقصان دہ ہوتا  ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ پاؤں پر پانی کا استعمال (اگرچہ پانی گرم ہی ہو) نقصان دہ ہے اور مذکورہ عورت پاؤں پر مسح بھی کر سکتی ہے، لہٰذا مذکورہ صورت میں صرف جرابوں پر مسح کافی نہ ہو گا بلکہ جرابیں اتار کر پاؤں پر مسح کرنا ضروری ہے۔ پاؤں پر مسح کیے بغیر وضو نہ ہوگا۔ پھر پورے پاؤں کا مسح ضروری ہے یا اکثر پاؤں پر مسح کرنا کافی ہے تو احتیاط اس میں ہے  کہ پورے پاؤں پر مسح کیا جائے۔

نیز ہر مرتبہ وضو کرتے وقت پاؤں پر  مسح کے  بجائے یہ بھی کر سکتی ہیں کہ  دن میں ایک مرتبہ   وضو (یعنی جن اعضاء کو دھو سکتی ہیں ان کو دھو کر اور پاؤں پر مسح) کر کے چمڑے کے موزے پہن لیں، اس کے بعد جب وضو ٹوٹ جائے اس وقت سے لے کر اگلے چوبیس گھنٹے تک چمڑے کے موزوں پر مسح کر لیا کریں۔ جب چوبیس گھنٹے پورے ہو جائیں تو اگر اس وقت وضو سے ہوں تو صرف موزے اتار کر پاؤں پر مسح کر لیں، اور اگر اس وقت وضو نہ ہو تو مذکورہ بالا طریقے سے وضو کر کے دوبارہ چمڑے کے موزے پہن لیں، اس کے بعد دوبارہ اوپر بیان کردہ ضابطے کے مطابق اگلے چوبیس گھنٹے کے لئے چمڑے کے موزوں پر مسح کر لیا کریں۔

امداد الفتاویٰ (1/16) میں ہے:

سوال:  بغیر پیر دھوئے وضو ہوجاتا ہے یا نہیں؟

جواب: اگر ایسا موزہ پہنے ہوئے نہ ہو، جس پر مسح درست ہوتا ہے تو پاؤں کا دھونا فرض ہے، بغیر پاؤں دھوئے وضو  درست نہ ہوگا۔ البتہ اگر موزہ نہ ہو اور دھونا مضر ہو اور گرم پانی کا انتظام نہ ہوسکے یا گرم پانی سے بھی مضر ہو تو مسح یعنی بھیگا ہوا ہاتھ پھیر لینا کافی ہے۔ فی الدر المختار: وکذا سقط غسله فيمسحه ولو علي جبيرة و إلا سقط اصلاً ، فی رد المحتار(1/266) میں ہے: وکذا يسقط غسله اي غسل الرأس من الجناية

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح (63) میں ہے:

قال الشرنيلاني: لو ضره غسل شقوق رجيله جاز  ’’اي صح امرار الماء علي الدواء الذي وضعه فيها ’’اي الشقوق للضرورة ولا يعاد الغسل ولو من جنابة ولا المسح في الوضو..

قوله (شقوق رجليه) أي مثلاً قوله (جاز امرار الماء علي الدواء) وإن ضره إمرار الماء علي الدواء مسح عليه و إن ضره أيضا ترکه و إن کان لا يضره شيء من ذلک تعين بقدر مالا يضره حتي لو کان يضره الماء البارد دون الحار وهو قادر عليه لزمه استعمال الحار ثم محل جواز إمرار الما ء علي الدواء إذا لم يزد علي رأس الشقاق فإن زاد تعين غسل ما تحت الزائد کما في ابن أمير حاج و مثله في الدر عن المجتبي لکن ينبغي أن يقيد بعدم الضرر کما لا يخفي أفاده بعض الأفاضل.

البحر الرائق (1/298) میں ہے:

وفي البدائع لو توضأ ومسح على جبائر قدميه ولبس خفيه أو كانت إحدى رجليه صحيحة فغسلها ومسح على جبائر الأخرى ولبس خفيه ثم أحدث، فإن لم يكن برئ الجرح مسح على الخفين؛ لأن المسح على الجبائر کالغسل لما تحته فحصل لبس الخفين على طهارة كاملة كما لو أدخلهما مغسولتين حقيقة في الخف۔

نوٹ:  پورے پاؤں پر مسح کرنا ضروری ہے یا اکثر پر مسح كر لينا بھی کافی ہے، اس سے متعلق کوئی صریح جزئیہ نہیں ملا۔ البتہ فتاویٰ شامی کی ایک عبارت ملی ہے لیکن علامہ شامی رحمہ اللہ نے بھی کوئی فیصلہ کن بات نہیں کی، بلکہ مراجعت کا فرما دیا۔   اس کے بعد مزید کتابوں کی طرف بھی مراجعت کی گئی لیکن کوئی صریح حوالہ نہ مل سکا۔   اور دوسری طرف پٹی پر مسح کی صورت میں اکثر پٹی کا مسح کافی ہے یا نہیں اس میں بھی اختلاف ہے۔  اس لیے جواب میں احتیاطاً پورے  پاؤں پر مسح کا لکھا گیا۔

فتاویٰ شامی (1/518) میں ہے:

( انكسر ظفره فجعل عليه دواء أو وضعه على شقوق رجله أجرى الماء عليه ) إن قدر وإلا مسحه وإلا تركه. قال الشامي تحت قوله: قوله ( وإلا مسحه ) هل يكتفي بمسح أكثره لكونه كالجبيرة أم لا بد من الاستيعاب فليراجع ا هـ

بزازیہ علی ہامش الہندیہ (1/66) میں ہے:

وإذا مسح على الجبيرة هل يشترط فيه الاستيعاب؟ ذكر الشيخ الإمام المعروف بخواهر زاده رحمه الله أنه لا يشترط فيه الاستيعاب، وإن مسح على الأكثر جاز، وإن مسح على النصف وما دونه لا يجوز، وبعضهم شرطوا الاستيعاب، وهو رواية الحسن عن أبي حنيفة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved