- فتوی نمبر: 24-11
- تاریخ: 20 اپریل 2024
- عنوانات: عبادات > نماز > نماز جنازہ و میت کے احکام
استفتاء
1) قبر کے اندر میت کے سر کے نیچے کوئی چیز جیسا کہ عہد نامہ رکھنا جائزہے؟
2) قبر کی سلیب پر کلمہ لکھنا جائز ہے؟
3) قبر پر اذان پڑھنا درست ہے؟
ان کے بارے میں دلائل کے ساتھ بتائیے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1) قبر میں میت کے سر کے نیچے یا قبر میں کسی اور جگہ کوئی عہد نامہ یا قرآنی آیات رکھنا جائز نہیں ہے۔
2) قبر کی سلیب پر روشنائی یا ایسی چیز جس سے حروف ظاہر ہوں کلمہ لکھنا جائز نہیں البتہ بغیر سیاہی کے صرف انگلی کے اشارے سے اس طرح لکھنا جائز ہے کہ حروف ظاہر نہ ہوں اور ایسے لکھنا اگرچہ جائز ہے لیکن بے فائدہ ہےلہذا اس سے بچنا چاہیے۔
3) قبر پر اذان دینا بدعت ہے۔
رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ (طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر 2صفحہ نمبر 166) میں ہے:
"[ تنبيه ] في الاقتصار على ما ذكر من الوارد إشارة إلى أنه لا يسن الأذان عند إدخال الميت في قبره كما هو المعتاد الآن ، وقد صرح ابن حجر في فتاويه بأنه بدعة. وقال : ومن ظن أنه سنة قياسا على ندبهما للمولود إلحاقا لخاتمة الأمر بابتدائه فلم يصب”
رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ (طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر 2صفحہ نمبر 186) میں ہے:
"وقد أفتى ابن الصلاح بأنه لا يجوز أن يكتب على الكفن يس والكهف ونحوهما خوفا من صديد الميت والقياس المذكور ممنوع لأن القصد ثم التمييز وهنا التبرك ، فالأسماء المعظمة باقية على حالها فلا يجوز تعريضها للنجاسة ، والقول بأنه يطلب فعله مردود لأن مثل ذلك لا يحتج به إلا إذا صح عن النبي صلى الله عليه وسلم طلب ذلك وليس كذلك ا هـ وقدمنا قبيل باب المياه عن الفتح أنه تكره كتابة القرآن وأسماء الله – تعالى – على الدراهم والمحاريب والجدران وما يفرش ، وما ذاك إلا لاحترامه ، وخشية وطئه ونحوه مما فيه إهانة فالمنع هنا بالأولى ما لم يثبت عن المجتهد أو ينقل فيه حديث ثابت فتأمل ، نعم نقل بعض المحشين عن فوائد الشرجي أن مما يكتب على جبهة الميت بغير مداد بالأصبع المسبحة – بسم الله الرحمن الرحيم – وعلى الصدر لا إله إلا الله محمد رسول الله ، وذلك بعد الغسل قبل التكفين اه”
الفتاوی العالمگیریۃ،کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون فی الجنائز ، الفصل السادس فی القبر والدفن (طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 349) میں ہے:
"ويكره عند القبر ما لم يعهد من السنة والمعهود منها ليس إلا زيارته والدعاء عنده قائما”
کفایت المفتی، کتاب العقائد (طبع:دار الشاعت کراچی، جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 184) میں ہے:
"(جواب۱۸۳ ): ۔۔۔قبر کی اذان کا بھی شریعت سے کوئی ثبوت نہیں۔۔۔الخ”
کفایت المفتی، کتاب الجنائز ، (طبع:دار الشاعت کراچی، جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 66) میں ہے:
"(سوال ) میت کو دفن کرنے کے بعد قبرپر بانگ دینی جائز ہے یا ناجائز ؟
(جواب ۵۴) قبر پر اذان کہنا بدعت ہے "
فتاوی محمودیہ، باب الجنائز، الفصل الثانی فی تکفین المیت (طبع: جامعہ فاروقیہ کراچی، جلد نمبر 8 صفحہ نمبر 537) میں ہے:
"سوال (۴۰۲۱): میت کے سینے پر کفن پہناتے وقت بعض لوگ کلمہ لکھتے ہیں۔ کیا یہ جائز ہے؟
الجواب حامدا و مصلیا: قلم کی روشنائی سے لکھنا منع ہے، بعض حضرات محض انگلی کے اشارے سے لکھ دیتے ہیں اس میں کوئی بے ادبی نہیں، مگر ثابت بھی نہیں، اگر کوئی اشارہ سے لکھ دے تو اس سے نزاع نہ کریں نہ تاکید کریں”
فتاوی دار العلوم دیوبند مکمل و مدلل ، کتاب الجنائزفصل سادس: قبر، دفن اور ان کے متعلقات(طبع: دار الاشاعت کراچی، جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 271) میں ہے:
"(سوال ۲/۳۰۵۲) مردہ کو قبر میں رکھنے سے پہلے قبر کی دیواروں میں کلمہ شہادت انگلی شہادت سے لکھ دینا درست ہے یا نہیں ۔؟
(الجواب ) (۲)بغیر سیاہی وغیرہ کے اگر صرف انگلی سے اشارہ کر دے اس طرح کہ نشان دیوار وں پر حروف کا نہ ہوتو کچھ حرج نہیں ہے ۔۔۔ الخ”
احسن الفتاوی، باب رد البدعات (طبع: ایچ ایم سعید کمپنی کراچی، جلد نمبر 1صفحہ نمبر 351) میں ہے:
"سوال: میت کے سینے یا پیشانی پر کلمہ شہادت لکھنا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب ومنہ الصدق والصواب: جائز نہیں اس لئے کہ میت کے پھٹنے کی وجہ سے بے حرمتی ہو گی۔ البتہ اگر بغیر روشنائی وغیرہ کے صرف انگلی سے میت کے سینے پر لکھا جائے اس طرح کہ لکھنے کے نشان ظاہر نہ ہوں تو یہ فی نفسہ جائز ہے۔ مگر آجکل لوگوں کے عقیدہ کا فساد ظاہر ہے اسے ضروری خیال کرتے ہیں اور ایسے امور سے معاصی پر جرأت کرنے لگتے ہیں لہذا اس طریقے سے لکھنا بھی جائز نہیں”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved