- فتوی نمبر: 24-57
- تاریخ: 20 اپریل 2024
- عنوانات: عبادات
استفتاء
جب میت کو دفن کر دیا جاتا ہے،تو سوالاتِ قبر کے وقت شیطان قبر میں مردے کو درست جوابات سے بہکانے کی کوشش کرتا ہے۔جیسا کہ حضرت سفیان ثوری علیہ الرحمۃ سے مروی ہے:’’اذا سئل المیت من ربک تراءی لہ الشیطان فی صورۃ فیشیر الی نفسہ ای انا ربک فھذہ فتنۃ عظیمۃ‘‘ترجمہ:جب میت سے قبر میں سوال کیا جاتا ہے کہ تیرا رب کون ہے؟تو اُسےشیطان ایک صورت میں دکھائی دیتا ہے اور وہ اپنی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی میں تیرا رب ہوں،پس یہ بڑی آزمائش ہے۔(نوادر الاصول،ج3،ص227،بیروت)
اِس کے بعد حکیم ترمذی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’فلو لم یکن ھناک سبیل ماکان لیدعو لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بان یجیرہ من الشیطان‘‘ترجمہ:اگر مسلمان مردے کو دفن کرنے کے بعدبہکانے کے لیے شیطان کے قبر میں آنے کی کوئی راہ نہ ہوتی،تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میت (جو قبرمیں ہے،اُس)کےحق میں شیطان سے حفاظت کی دعا نہ فرماتے۔(نوادر الاصول،ج3،ص227،بیروت)
اور صحیح حدیثوں سے ثابت ہے کہ اذا ن شیطان کو دفع کرتی ہے۔چنانچہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اذا اذن المؤذن ادبر الشیطان ولہ حصاص‘‘ترجمہ:جب مؤذن اذان دیتا ہے،توشیطان پیٹھ پھیر کر،گوز لگا کر بھاگتا ہے۔(الصحیح لمسلم،ج1،ص291،دار احیاء التراث،بیروت)
لہٰذا اہلِ سنت وجماعت اپنے مسلمان بھائی کی بھلائی کے لیے اُس کی قبر پر اذان دیتے ہیں تا کہ سوالاتِ قبر کے جوابات کے وقت شیطان وہاں سے بھاگ جائے اور وہ مسلمان شیطان کے فتنے سے بچ کر درست جوابات دینے میں کامیاب ہو کر آخرت میں سُرخرو ہوجائے
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو دفن کرنے کے بعد اونچی آواز سے تکبیر(اللہ اکبر)کا تکرار فرمایا۔چنانچہ المعجم الکبیر اور مسند احمد وغیرہ کتب ِحدیث میں ہے کہ حضرت سیدناجابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں(الفاظ مسند احمد کے ہیں):’’فلما صلی علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ووضع فی قبرہ وسوی علیہ سبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فسبحنا طویلا ثم کبر فکبرنا۔فقیل:یارسول اللہ !لم سبحت ثم کبرت ؟قال:لقد تضایق علی ھذالعبد الصالح قبرہ حتی فرجہ اللہ عنہ‘‘ترجمہ:جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی نمازِ جنازہ ادا فرمائی اور اُنہیں قبر میں رکھا اور اوپرسے مٹی برابر کر دی،تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سبحان اللہ فرمایا،تو ہم نے بھی کافی دیر سبحان اللہ کہا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ اکبر فرمایا،تو ہم نے بھی اللہ اکبر کہا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سبحان اللہ اور اللہ اکبر کیوں فرمایا؟فرمایا:اِس نیک بندے پر قبر تنگ ہوئی،تو اللہ تعالیٰ نے اِس تسبیح و تکبیر کی وجہ سے قبر کو کشادہ فرما دیا۔(مسند امام احمد بن حنبل،ج23،ص158،مؤسسۃ الرسالۃ،بیروت)
علامہ طیبی علیہ الرحمۃ اِس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں:’’ای مازلت اکبر واسبح ویکبرون ویسبحون ویکبرون حتی فرجہ اللہ عنہ‘‘ترجمہ:یعنی میں اورمیرےصحابہ سبحان اللہ اور اللہ اکبر کہتے رہے حتی کہ اللہ تعالیٰ نے اِس کی قبر کو کشادہ کر دیا۔(شرح طیبی،ج1،ص265،ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیۃ،کراچی)
قبر پر تکبیر(اللہ اکبر )کا تکرار کرنا حدیث پاک سے ثابت ہوا اوراذان میں بھی تکبیر کے الفاظ کا تکرار ہوتا ہے۔
کیا یہ سب کچھ درست ہے ۔ ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
قبر پر اذان دینا بدعت ہے ۔
حاشية ابن عابدين (2/ 235) میں ہے:
لا يسن الأذان عند إدخال الميت في قبره كما هو المعتاد الآن، وقد صرح ابن حجر في فتاويه بأنه بدعة. وقال: ومن ظن أنه سنة قياسا على ندبهما للمولود إلحاقا لخاتمة الأمر بابتدائه فلم يصب.
فتاوی عثمانی (1/113) میں ہے:
دفن کے بعد قبر پر اذان دینے کا حکم
سوال: دفن کرنے کے بعد قبر پر کھڑے ہو کر جو اذان دی جاتی ہے شریعت میں اس کی کوئی اصل ہے یا نہیں؟
جواب: دفن کے بعد اذان دینے کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں، اس سے احتراز کرنا لازم ہے، کیونکہ یہ بدعت ہے ۔واللہ اعلم ۔ الجواب صحیح احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ
آپ کے مسائل اور ان کا حل (3/124) میں ہے:
س… کیا میّت کو دفنانے کے بعد قبر پر اذان دینا جائز ہے؟ اور بعد از اذان قبر پر رُکنا اور میّت کے لئے اِستغفار پڑھنا جائز ہے؟
ج… قبر پر اذان کہنا بدعت ہے، سلف صالحین سے ثابت نہیں، البتہ دفن کے بعد کچھ دیر کے لئے قبر پر ٹھہرنا اور میّت کے لئے دُعا و اِستغفار کرنا سنت سے ثابت ہے۔
امداد الفتاوی جدید(11/435) میں ہے:
سوال (۳۲۴۴) : قدیم ۵/۳۰۱-: ان دنوں شہر سورت میں میں نے ایسا مسئلہ بیان کیا کہ بعد دفن مردہ کے قبر پر اذان کہنا چونکہ وہاں شیطان آتا ہے، قبر کے اندر جب مؤذن اذان دیتا ہے قبر پر تو مردہ مؤذن کی اذان سُن کر جواب دیتا ہے تو شیطان بھاگتا ہے اور اذان کہناسنت ہے بلکہ سیورام پورہ اور حسن جی صاحب کے مقبرہ پر اذان بعد دفن کہی گئی، جس پر اہل سورت کے علماء سے دریافت کیا تو انہوں نے تلقین وتسبیح وتحمید وتکبیر پڑھنے کو کہا اور اذان کا کہنا فقہاء نے کہیں نہیں لکھا ہے۔ اس لئے کون حق ہے، اس کا جواب بحوالۂ کتب معتبرہ ارسال فرما کربندہ کو ممنون فرماویں ؟
الجواب: اول تو کسی حدیث صحیح سے شیطان کا قبر کے اندر آنا ثابت نہیں ، پھر اگر اس کو بھی مان لیا جاوے تو اس کا آنا محتمل ضرر نہیں ، کیونکہ اس کا اضلال اسی عالم کے ساتھ خاص ہے، کیونکہ یہ عالم تکلیف وابتلاء ہے: کما ورد في الحدیث ”فإن الحي لا تؤمن علیہ الفتنۃ“اور جب آدمی مر گیا، اگر مہتدی تھا ضال نہیں ہو سکتا اگر ضال تھا مہتدی نہیں ہو سکتا، پس اس بناء پر اذان کا تجویز کرنا بناء الفاسد علی الفاسد ہے، پھر قطع نظر اس سے یہ قیاس ہے، کیونکہ حضور ﷺ اور صحابہؓ سے کہیں منقول نہیں اور اولاً تو یہ محل قیاس کا نہیں دوسرے قیاس غیر مجتہد کا ہے کیونکہ بعد مأتہ رابعہ کے اجتہاد منقطع ہے کما صر حوا بہ بہر حال بوجہ عدم ثبوت بالدلیل الشرعی کے یہ عمل بدعت ہے۔ بلکہ عدم ثبوت سے بڑھ کر یہاں ثبوت عدم بھی ہے، کیونکہ علماء نے اس کو رد کیا ہے: کما في ردالمحتار أول باب الأذان قیل: وعند إنزال المیت القبر قیاسا علی أول خروجہ للدنیا لکن ردہ ابن حجر في شرح العباب۔ بالخصوص جب کہ عوام اس کااہتمام والتزام بھی کرنے لگیں کما ہو عادتہم فی امثال ہذہ کہ التزام مالا یلزم سے مباح بلکہ مندوب بھی منہی عنہ ہو جا تا ہے۔ کما صرّح بہ الفقہاء وفرعوا علیہ احکاماً
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved