• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

قبضہ سے پہلے مال بائع کی ملک ہے، وعدہ بیع کی ایک صورت

استفتاء

ایک کمپیوٹر کمپنی (ABC) نے 9200 فی پیس کے حساب سے کمپیوٹر کے 1000 پیس فروخت کیے۔  (ABC) کمپنی اور خریدار کے درمیان طے ہوا کہ ادائیگی ایک مہینے تک ہوگی اور جیسے جیسے پیمنٹ کی ادائیگی ہوتی جائے گی ایسے ہی ڈلیوری ہوتی جائے گی۔ اس عقد میں جو کمپیوٹر فروخت کیے ہیں وہ متعین نہیں ہیں، بس بل بنا دیا جاتا ہے کہ فلاں کو اتنے اتنے کمپیوٹر دینے ہیں۔ خریدار نے ایک لاکھ دیا لیکن سامان نہیں اٹھایا۔ پھر ایک لاکھ دیا لیکن سامان پھر بھی نہیں اٹھایا۔ اس طرح چار لاکھ روپے خریدار نے کمپنی کو دے دیے لیکن سامان نہیں اٹھایا۔ اسی دوران مارکیٹ میں اس سامان کا ریٹ گر گیا اور 8975 روپے فی پیس ہوگیا۔ کمپنی والوں نے مہینے کے ختم پر کئی بار خریدار کو پیغام بھیجا کہ اپنی پیمنٹ مکمل کریں اور سامان اٹھالیں لیکن خریدار نے کوئی رابطہ نہ کیا۔ کمپنی اور خریدار کے درمیان ایک ایجنٹ ( بروکر) بھی ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد خریدار نے بروکر کے ذریعے  (ABC) کمپنی کو پیغام بھجوایا کہ آپ میرا سامان مارکیٹ میں فروخت کردیں اور جو نقصان ہوگا وہ میں بھر دوں گا لیکن کمپنی نے انکار کیا کہ ہم اس طرح کام نہیں کرتے۔ آپ اپنا سامان اٹھا لیں لیکن اس پر بھی خریدار نے سامان وصول نہیں کیا۔ کچھ عرصہ کے بعد  (ABC) کمپنی نے خریدار کو پیغام بھجوایا کہ آپ کے مال کا اس وقت مارکیٹ ریٹ 8975 روپے فی پیس کے حساب سے ہے اور ہم اسے اسی ریٹ پر اپنے نام ڈال رہے ہیں۔ اس پر بھی خریدار کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ کئی بار پیغام بھیجا، ای میل بھی کی اور بروکر کے ذریعے بھی پیغام دیا لیکن خریدار نے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ کمپنی والوں کو یہ اطلاع بھی تھی کہ پیغام خریدار کو مل گیا ہے۔ بالآخر کمپنی نے وہ مال اس وقت کے مارکیٹ ریٹ 8975 روپے فی پیس پر خود خرید لیا۔ یہ وہ ریٹ تھا جس پر کمپنی نے خود بھی ایک دن پہلے اپنا سامان مال فروخت کیا تھا اور مارکیٹ میں اس کا یہی ریٹ چل رہا تھا۔ 9200 روپے کے حساب سے 1000 پیس کی قیمت 9200000 روپے بنتی تھی اور 8975 روپے حساب سے 8975000 روپے بنے۔ اس نقصان کو کمپنی نے خریدار کے ایڈوانس دیے گئے 4 لاکھ روپے سے پورا کیا۔ کچھ دنوں بعد خریدار نے وہ مال آگے کسی کو فروخت کر دیا اور نئے خریدار سے کہا کہ کمپنی کے پاس میرا مال پڑا ہوا ہے وہاں سے جاکر لے لیں۔ نیا خریدار جب کمپنی پہنچا تو کمپنی والوں نے بتایا کہ وہ مال ہم فروخت کرچکے ہیں آپ مالک سے کہیں کہ ہم سے رابطہ کرے۔ نئے خریدار نے کہا وہ رابطہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ میرا سامان وہاں سے لے لیں۔ کمپنی والوں کا پوچھنا یہ ہے کہ ہم نے جو کیا شرعاً اس کیا حیثیت ہے؟

وضاحت: سائل نے فون پر بتایا کہ اس کا اپنے خریدار کے ساتھ 30 دن کے ادھار کا سودا ہوا تھا۔ سائل کو جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ خریدار کمزور ہے پیسے نہیں دے سکتا، 30 دن پورے ہونے کے بعد بھی گاہک مزید پیسے نہ دے سکا اور ہمارا اس سے مطالبہ چلتا رہا۔ اسی اثناء میں اس نے مذکورہ مطالبہ کیا کہ ہم اس کی ذمہ داری پر نقصان کے ساتھ مال بیچ دیں۔ چونکہ اس وقت ہمارے پاس اپنا مال وافر تھا ہم نے اس کی بات کو قبول نہ کیا۔ حتی کہ آٹھ دن گذر گئے اور ہمارا مال ختم ہوگیا۔ ہم نے بروکر کے ذریعہ سے ڈیڈلائن دی کہ آج شام تک پیسے ادا کر دو ورنہ ہم ایڈجسمنٹ کر لیں گے۔ اس نے ہم سے مطالبہ کیا کہ ہم اسے مزید دس بارہ دن کی مہلت دیں۔ ہم نے کہا کہ اگر آپ نے ساٹھ لاکھ روپے دیئے ہوتے اور ہم سے مہلت مانگتے تو بات بھی تھی محض چار لاکھ روپے پر مزید مہلت کیسے دے سکتے ہیں۔ لہذا ہم نے مال  ایڈجسٹ کرلیا اور اس کے چار لاکھ میں سے 225000 روپے نقصان میں شامل کر لیے اور باقی 175000 روپے اس کی امانت اس کے بروکر کو دے دی۔ جس نے اسے بتا دیا کہ آپ کی رقم میرے پاس آگئی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ مزید دس دن گذرنے کے بعد اس شخص نے آگے کسی کو مارکیٹ سے مزید سستا مال نقد بیچ دیا اور پیسے ہمارے اکاؤنٹ میں فوراً جمع کرانے کا کہا تاکہ وہ ہماری ادائیگی کر سکے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

” جیسے جیسے ادائیگی ہوتی جائے گی سامان کی ڈیلیوری ہوتی جائے گی” یہ وعدہ بیع ہے کہ جتنی ادائیگی ہوگی اسی کے بقدر سودا ہوگا۔ ایک لاکھ دیے لیکن سامان نہیں اٹھایا یعنی اس کی تعیین اور قبضہ نہیں کیا۔ لہذا چار لاکھ کے عوض جو مال بنا وہ ابھی بائع کی ملکیت میں ہے۔ خریدار کی ملکیت میں نہیں آیا۔ خریدار یا تو سابقہ ریٹ پر سامان لے لے یا فریقین راضی ہوں تو سودا ختم کرکے اپنے پیسے واپس لے سکتا ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved