- فتوی نمبر: 13-6
- تاریخ: 10 ستمبر 2018
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
2006میں اپنی ذاتی وجہ سے دبئی سے پاکستان آنا چاہتا تھا دبئی میں اپناقرض اتارنے کے لیے میں نے اپنے والد صاحب سے مدد مانگی اور کچھ رقم (تقریبا انیس لاکھ) بطور ادھار لی اس وقت ہمارے درمیان کوئی شرائط طے نہ ہوئی تھیں اس کے بعد میں پاکستان واپس آگیا یہاں میرے وسائل اتنے نہ تھے کہ میں یہ رقم واپس کرسکتا میں نے اپنا قرض واپس کرنے کے لیے والد صاحب کو اپنی زرعی زمین ان کے نام کرنے کی تجویز دی جو انہوں نے رد کردی۔
اب وہ اپنے چھوٹے بیٹے کی وجہ سے کہتے ہیں کہ اگر ہم نے اس رقم کی پراپرٹی لی ہوتی تو ہماری رقم کئی گنا زیادہ ہو جاتی جبکہ میں نے رقم ادھار لی تھی کسی کاروبار یا پراپرٹی کے لیے نہیں لی تھی اب والد صاحب اور بھائی کا مطالبہ یہ ہے کہ ان کو رقم زیادہ (والد صاحب اور بھائی کہہ رہے کہ اپنا مکان بیچو اور اس کاتیسرا حصہ ہمیں دو جو تقریبا 60لاکھ سے زائد بنتا ہے)دی جائے۔ ایسی صورت میں اسلام اور شریعت کا کیا حکم ہے قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت کردیں ۔جزاک اللہ
وضاحت مطلوب ہے:
اس وقت رقم کی ترسیل کا طریقہ کیا اختیار کیا گیا تھا؟بینک کے ذریعے ترسیل کی تھی یا کسی اور ذریعے سے بھیجی ؟دونوں صورتوں میں اس کا طریقہ کار بتائیں ؟
جواب وضاحت:
بینک کے ذریعے رقم ترسیل کی اور پیسے بینک اکاونٹ میں جمع کرواتے تھے اور میں نے دوبئی میں درھم کی شکل میں وصول کیے تھے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں قرض دہندہ نے اگرچہ بینک کو روپے دئیے تھے مگر بینک چونکہ اس کا نمائندہ ہے جس نے ان روپوں کو دراھم میں تبدیل کرکے مقروض تک پنچایا تھا اس لیے نتیجتا قرض کا یہ معاملہ درھم میں ہوا چنانچہ اب مقروض اس بات کاپابند ہے کہ اس نے جتنے درھم اس وقت وصول کیے تھے اتنے درھم واپس کرے یا ان درھموں کے جتنے روپے بنتے ہیں وہ واپس کرے قرض دہندہ کا ساٹھ لاکھ کی مالیت کا مطالبہ کرنا درست نہیں ۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved